بسم اللہ الرحمن الرحیم

سائنس و ٹیکنالوجی

پاکستانی سکالر کا بگ ڈیٹا میں چین-پاکستان تبادلوں کو آگے بڑھانے کا وژن

300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی بلٹ ٹرین پر ایک ہموار فائیو جی کنکشن کیا ظاہر کرتا ہے؟چین میں زیر تعلیم ایک پاکستانی پی ایچ ڈی طالب علم عبید الرحمن کے لئے یہ محض ایک تکنیکی کارنامہ نہیں تھا بلکہ وہ لمحہ تھا جب ان کے ذہن میں چین اور پاکستان کے درمیان ٹیکنالوجی کے تبادلے کو آگے بڑھانے کا ایک طاقتور وژن ابھرا۔

عبید چین کے وسطی صوبے ہوبے میں چائنہ ہواژونگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں سائبر سکیورٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ انہوں نے ستمبر 2023 میں پہلی بار چین کا سفر کیا۔ انہوں نے کہا کہ میری تحقیق کے دوران مجھے پتہ چلا کہ چین مصنوعی ذہانت (اے آئی) میں بہت آگے جا رہا ہے اور اسی وجہ سے میں نے چین کو منتخب کیا۔

چند سال پہلے تیز رفتار ٹرینوں پر مستحکم فائیو جی سروس کا حصول، جسے عبید نے اس وقت ’’ہمارے لئے ایک خواب‘‘ قرار دیا تھا، اس کی دلچسپی اور متاثر ہونے کی شروعات تھی۔

انہوں نے روزمرہ کی زندگی میں ٹیکنالوجی کے گہرے انضمام کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ووہان، گوانگ ژو، شین زین یہاں تک کہ تیز رفتار ٹرین میں بھی فائیو جی دستیاب ہے۔ چین میں فائیو جی تقریباً ہر کسی کے لئے قابل رسائی ہے۔ یہاں تک کہ چھوٹے کھلونے بھی فائیو جی ٹیکنالوجی کے ساتھ آتے ہیں۔

گزشتہ ماہ چین کے جنوب مغربی صوبے گوئی ژو کے دارالحکومت گوئی یانگ میں 2025 چائنہ انٹرنیشنل بگ ڈیٹا انڈسٹری ایکسپو میں ان کا تعلیمی سفر مزید تیز ہوا۔

وہاں انہوں نے مصنوعی ذہانت کی عالمی کمپنیوں کے ساتھ بات چیت کی اور تازہ ترین ترقی کو براہ راست دیکھا۔ عبید جن کی مہارت مصنوعی ذہانت اور سائبر سکیورٹی کے سنگم پر ہے، نے بتایا کہ ہر ایک کے لئے بگ ڈیٹا کی دستیابی کے ساتھ مصنوعی ذہانت مزید مضبوط، قابل اعتبار اور موثر ہو جائے گی۔

ایکسپو کی میزبانی کرنے والا صوبہ گوئی ژو چین کے سٹریٹجک ڈیٹا وژن کا ایک ثبوت ہے۔ اس کی ٹھنڈی آب و ہوا اور بڑے زلزلہ والے علاقوں سے دوری ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ڈیٹا انڈسٹری کے لئے ایک مثالی، قدرتی طور پر ایئر کنڈیشنڈ اور محفوظ ذخیرہ فراہم کرتی ہے۔

ٹیکنالوجی کے کرشموں سے ہٹ کر عبید نے ایک خلا کو پر کرنے کا موقع دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ چین-پاکستان تعلقات بہت اچھے ہیں۔ ہماری حکومتیں قریبی دوست ہیں لیکن اب میں ان کمپنیوں کے درمیان موجود خلا کو پر کرنا چاہتا ہوں جو حقیقی کام کر رہی ہیں۔

پاکستان کی ویب 3.0 اور بلاک چین میں گہری دلچسپی کا ذکر کرتے ہوئے عبید نے شِنہوا کو بتایا کہ ان کا یہاں آنے کا مقصد اپنی اور اپنے ملک دونوں کے لئے مواقع تلاش کرنا تھا۔

انہوں نے مزید کہاکہ میں چین میں سیکھے ہوئے تجربات اور ٹیکنالوجیز کو پاکستان واپس لے جانا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ میں پاکستان اور چین کے درمیان فاصلے کو کم کرسکوں گا۔ میری یہ خواہش ہے کہ میں ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی دونوں میں چین کی بڑھتی ہوئی صنعت کا حصہ بنوں۔

اشتہار
Back to top button