بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

صدر الیکشن کی تاریخ دیتے ہیں تو یہ غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی اقدام ہوگا، مولانا فضل الرحمان

جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ الیکشن 90 دن کے بجائے بے شک کل کرا دیں، ہم تیار ہیں لیکن انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام ہے، صدر مملکت اس کے ذمہ دار نہیں ہیں اور وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ غیرآئینی اور بدنیتی پر مبنی ہو گا۔ نجی ٹی وی پروگرام میں  گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا ہے کہ ہم نے ساڑھے تین سال صرف اس بات پر گزارے کہ الیکشن کراؤ لیکن کس طرح کراؤ، ہمارا یہ خیال تھا کہ اگر ہم سب قومی اسمبلی سے استعفے دے دیتے ہیں تو آدھا ایوان خالی ہو جاتا ہے، پنجاب سے استعفے دیتے ہیں تو آدھا ایوان خالی ہو جاتا ہے، سندھ کی اسمبلی توڑ دیتے ہیں تو الیکٹورل کالج ہی ختم ہو جاتا ہے جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہماری اتنی تعداد ضرور تھی کہ ہم ان کو دوبارہ الیکشن پر مجبور کر سکتے تھے لیکن غالباً اس وقت اسٹیبلشمنت بھی فوری طور پر الیکشن نہیں چاہتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا گلہ تھا کہ جب پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ بن رہی تھی تو استعفوں کا آپشن ہی اعلامیے سے نکال دیا گیا تھا جسے ہمیں زبردستی لڑ کر ڈلوانا پڑا تھا لیکن اس سے اندازہ ہوا کہ سوچ کا فرق آ چکا تھا۔انہوں نے کسی کا حوالہ دیے بغیر کہا کہ آپ 90 دن کی آئینی مدت کے اندر الیکشن کرانے کی بات کر رہے ہیں، بے شک آپ کل الیکشن کرا دیں ہم تیار ہیں لیکن ہم الیکشن کرانے کے لیے سپریم کورٹ کو اجازت دے دیں کہ وہ ہمیں انتخابات کا شیڈول دے گا، کیا ہم الیکشن شیڈول کے لیے صدر مملکت کو اختیار دے دیں یا اس کے لیے الیکشن کمیشن خود ایک ادارہ ہے۔

مزید پڑھیے  الیکشن کمیشن، وزارت داخلہ کو انٹرنیٹ سروسز کے حوالے سے کوئی ہدایات نہیں دے گا، چیف الیکشن کمشنر

مولانا فضل الرحمٰن نے کہاکہ پیپلز پارٹی سابقہ حکومتی اتحاد کی دوسری سب سے بڑی جماعت تھی لیکن انہوں نے اس نئی مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کرانے کا فیصلہ کر لیا تو اب حلقہ بندیوں سمیت تمام امور الیکشن کمیشن کو تفویض شدہ ہیں اور وہ اب فیصلہ کرے کہ کب الیکشن کرانا چاہتے ہیں۔

Back to top button