
پاکستان میں دواؤں سے مزاحمت سب سے بڑی قاتل بیماری بن گئی، سالانہ تین لاکھ سے زائد ہلاکتیں
پاکستان میں اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس (AMR) یعنی جراثیموں میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے مزاحمت نے سب سے بڑی قاتل بیماری کی صورت اختیار کر لی ہے، جو ماہرین کے مطابق ہر سال دس لاکھ سے زائد افراد کی جان لے رہی ہے۔ ان میں سے کم از کم تین لاکھ اموات براہ راست دواؤں کے خلاف مزاحمت کی وجہ سے ہوتی ہیں، جبکہ سات لاکھ افراد ان پیچیدگیوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جو غیر مؤثر اینٹی بایوٹک استعمال کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔
یہ انکشاف وزارت قومی صحت، ضوابط و ہم آہنگی (NHSR&C) میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران کیا گیا، جہاں ماہرینِ صحت نے پاکستان کے دوسرے قومی ایکشن پلان (NAP 2.0) پر فوری عملدرآمد پر زور دیا۔
اجلاس میں پروفیسر جاوید اکرم کی سربراہی میں ایک ٹیکنیکل ورکنگ گروپ (TWG) قائم کیا گیا، جو قومی سطح پر اینٹی بایوٹک اسٹیورڈشپ کی نگرانی کرے گا۔ پروفیسر جاوید اکرم پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن (PSIM) کے بانی صدر بھی ہیں۔
اجلاس کا انعقاد وزارت صحت اور گیٹز فارما نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ یہ اجلاس نیشنل اے ایم ایس سمٹ کے تسلسل میں منعقد ہوا، جو 19 مئی کو کراچی میں منعقد ہوئی تھی، جہاں وزارت صحت، ہیلتھ سروسز اکیڈمی، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) اور گیٹز فارما نے اے ایم آر کے خلاف عزم نو کا اعلان کیا تھا۔
پیر کے روز اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر شبانہ سلیم نے خبردار کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں دستیاب تمام اینٹی بایوٹکس غیر مؤثر ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 95 فیصد سے زائد اینٹی بایوٹکس پرائمری کیئر سطح پر استعمال ہوتی ہیں، اس لیے عام معالجین کی تربیت اور عوامی آگاہی انتہائی ضروری ہے۔
معروف معالج اور پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کے بانی سربرا ہ پروفیسر جاوید اکرم نے اے ایم آر کو پاکستان کا سب سے سنگین صحت کا بحران قرار دیا، جبکہ ان کا کہنا تھا کہ اسپتالوں میں مریضوں اور ان کے اہل خانہ کو لگنے والی انفیکشنز دوسرے نمبر پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اکثر مریض کامیاب سرجری کے بعد اسپتال میں پائے جانے والے انتہائی مزاحم جراثیموں سے متاثر ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور بعض اوقات تیماردار بھی متاثر ہو کر چل بستے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے جراثیم اسپتالوں میں اندھا دھند اینٹی بایوٹک کے استعمال سے پیدا ہوتے ہیں، اور اسپتالوں کے گندے پانی اور مکھیوں کے ذریعے معاشرے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ پروفیسر جاوید اکرم نے تجویز دی کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS) کو اے ایم آر کنٹرول کے لیے ماڈل اسپتال بنایا جائے۔
گیٹز فارما کے پبلک ہیلتھ آپریشنز کے سربراہ کاشف امین نے کہا کہ ڈاکٹرز اے ایم آر کے خلاف پہلی دفاعی لائن ہیں اور ان کی تربیت سے ہی معقول نسخہ نویسی ممکن ہے۔ انہوں نے کمیونٹی انگیجمنٹ بڑھانے پر زور دیا۔
ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے حکام نے بتایا کہ اے ایم آر کا ایک جامع نصاب حتمی مراحل میں ہے، جس کے تحت رواں سال کے اختتام تک کم از کم 1500 جنرل فزیشنز اور آئندہ تین برسوں میں 15 ہزار سے زائد ماہرین کو تربیت دی جائے گی۔
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) کے صدر پروفیسر عاطف حفیظ اور سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے سی ای او ڈاکٹر احسن قوی نے اے ایم آر تعلیم کو میڈیکل کے انڈرگریجویٹ نصاب میں شامل کرنے کی سفارش کی۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) سے ڈاکٹر مہوش انصاری اور عبداللہ ابڑو، NIH سے ڈاکٹر عمیرہ نصیر، PIMS سے پروفیسر نسیم اختر اور دیگر ماہرین نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ پبلک ہیلتھ ماہر پروفیسر رانا جواد اصغر نے صاف پانی، بہتر صفائی، اور انفیکشن کنٹرول پروٹوکولز پر عملدرآمد پر زور دیا۔
اجلاس کے آخر میں صوبائی ہیلتھ کیئر کمیشنز اور دیگر شراکت دار اداروں کے نمائندگان نے حکومت، ماہرین، اور فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے ساتھ مل کر اے ایم آر کے خلاف مشترکہ جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ (اختتام)
رانا جواد اصغر – سی ای او گلوبل ہیلتھ اسٹریٹجسٹ، اور پروفیسر جاوید اکرم اسلام آباد میں وزارت قومی صحت، ضوابط و ہم آہنگی (NHSR&C) اور گیٹس فارما کے اشتراک سے منعقدہ اینٹی مائیکروبیل اسٹیواردشپ پر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں دیگر شرکاء کے ساتھ ۔