سرگودھا کی سرزمین بڑی زرخیز ہے۔ یہاں سے تعلق رکھنے والی متعدد شخصیات مختلف حوالوں سے نامور ہوئ ہیں۔ علم و ادب اور صحافت کے حوالے سے سرگودھا کو وطن عزیز میں ممتازمقام حاصل ہے۔ نامورادیبہ اور مصنفہ محترمہ کنیز بتول کھوکھر کا تعلق بھی سرگودھا سےہے۔ سرگودھا کے ایک علاقے موضع نوشہر ہ کھوکھراں میں محمد علی کھوکھر نامی متمول زمیندار کے ہاں ایک بیٹی کنیز بتول کھوکھر نے آنکھ کھولی۔ جس کی جتنی تدریس ہوئی اتنی تفہیم ہوئی ۔کنیز بتول کو شروع ہی سے اس کے خاندان نے شعور وآگاہی دی۔ وہ شعوری طور پر گھر میں پڑھ رہی تھی اور ظاہرہ طور پر سکول میں تعلیم پائی۔ جنوبی پنجاب کا کوئی بھی علاقہ ہو یہ مسئلہ طالبات کو کالج کی تدریس تک رہتا ہے کہ انہیں تحصیل علم اور تفہیم میں خود پر انحصار کرنا پڑتا ہے یہی کنیزبتول کے ساتھ ہوا۔
تاریخ قدیم بتاتی ہے کہ کھوکھرانہ شاہ جہان کے دور میں شہر جس جگہ تھا وہ سرگودھا ہوا۔ویسے گودھا ایک فقیر اورہندی لفظ سر بمعنی تالاب سے یہ مشتق ہے ۔1931ء میں میونسپلٹی ۔پھر تین تحصیلوں کا ضلع ہوا۔1965ء سے شاہینوں کا شہر سکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم ایم ایم عالم کاشہرجہاں ادب کے نامور افرادڈاکٹرز وزیر آغامدیر اوراق۔ انورسدید۔ رفیع الدین ہاشمی ۔مرزا محمد منور ۔جسٹس گل باز خان مصطفی ا صادق ۔کا یہ شہر اب پروفیسر غلام جیلانی اصغر ۔مظفر احسانی ۔خلیل بدایونی ۔علامہ رشک ترابی ۔ڈاکٹر خورشید رضوی ۔شاکر نظامی ۔کنول فیروز ۔بیدار سرمدی ۔اثر چوہان، ممتاز عارف، ارشد محمود ارشد، منزہ انور. میثم کھوکھر ۔نجمہ منصور ۔حمیدہ شاہین ذوالفقار احسن معین نظامی حمیدہ شاہین ۔ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ۔شاکر کنڈان ۔خالد اقبال یاسر ۔عابد خورشید ۔شفیق آصف ۔فرخ سہیل گوئندی افضل گوھر راٶ ۔بشری اعجاز ۔اقتدار جاوید ۔صنوبر غزل ۔ نصیر احمد نصیر ۔غزالہ اطہر ۔ممتاز بیگم ۔ صائمہ یاسمین ۔پروفیسر محمد مظفر مرزا ۔ڈاکٹر محمود احمد اسیر مولانا صلاح الدین احمد ۔اور اب کنیز بتول کھوکھرجیسے صاحب اسلوب مصنفین اور شعراء کا گڑھ ہے۔
سرگودھا کا ایک تاریخی قصبہ تخت ہزارہ جہانگیر نگر ہے ۔کچھ محققین اسے حافظ برخوردار رانجھاسے منسوب کرتے ہیں مگر جو داستان وارث شاہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک جھنگ جانے والا دھیدو قوم رانجھا ولد موجوجٹ زمیندارکا اصل مسکن یہ ہے ۔تاہم وائس چانسلر ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور پروفیسر عبدالکریم کے زیر مطالعہ کتاب دستک در مقفل کی مصنفہ گور نمنٹ گرلز ڈگری کالج سرگودھا سے ایف اے کے بعد اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے گریجویشن کے بعد ماسٹر ڈگری ان اردو کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہیں ایم اے اور ساتھ ہی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے بی ایڈ کیا۔ پھر فنون جو خواتین کاشعبہ ہے سیکھ کر اس روشنی کوووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے یک سالہ کورس کے ذریعے پھیلایا۔ سکول تدریس کا بھی آغاز کیا۔ کمپیوٹر کی مہارت کاحصول اضافی قابلیت رہی۔ 2012ءمیں اسلام آبادمیں صحت کی نگہداشت کا اسلامی طریقہ کا ڈپلومہ پایا اور ثابت کیا کہ لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ پڑھتی اور تحصیل علم کا ذوق رکھتی ہیں۔ ذاتی یو ٹیوب چینل میں یہ بہت کام آرہا ہے۔ انہوں نے اتنا سارا مشاہدہ کیا اس کو قوم و ملک کو شئیر کرنے کا واحد ذریعہ کتاب تھی ۔جس کے مہکتے قیمتی دوسو پیجز پر ان کے کم وبیش پچاس عنوانات کےمضامین موجود ہیں جو ہماری سماجی معاشرتی اخلاقی گھریلو قومی اور مستقبل کی زندگیوں کے متعلق وہ حساس مضامین ہیں جن کو مردو خواتین پڑھ کر نہ صرف تحصیل اردوو مافی الضمیر موضوع سے روح کو روشن کر سکتے ہیں بلکہ وہ لکھاری خواتین جو ابھی ابتدا پر ہیں یہ پڑھیں تو وہ مضمون نگاری کے فن سے بدستور اور بخوبی آشنا ہو سکتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں ایک روانی معاشرے سے عقیدت و محبت کا رنگ جھلکتا ہے ۔لاہور گیریژن یونیورسٹی کےپی ایچ ڈی سکالر نے ان کے کتاب کے موضوع کاقیصرا لجعفری کے اس شعر سے بخوبی اندازہ لگایا ہے۔
دستک میں کوئی درد کی خوشبو ضرور تھی
دروازہ کھولنے کے لیے گھر کا گھر اٹھا
بیسویں صدی کی ربع صدی ابھی گذری ہے اور اکیسویں صدی کی ربع صدی 31 جنوری 2024ء کوتمام ہوگی ۔ محترمہ کنیز بتول کھوکھر نے وہ موضوعات چنے ہیں جو انسانی ضمیر اور روح کی پاکیزگی کا ایک ذریعہ ہیں ہم سوچ سکتے ہیں ازافرینش انساں یہی لکھا جارہا ہے تو کنیز بتول کھوکھر کو ایسا لکھنے کی ضرورت کیوں پڑی جبکہ منیر نیازی لکھ چکے ہیں
وہ کہتی ہے کون
میں کہتا ہوں میں
کھولویہ بھاری دروازہ
مجھ کو اندر آنے دو
اس کے بعد ایک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور
بہر حال بات پچھلی صدی کی بھی ہورہی تھی اس میں یورپی مفکرین نے واضح کیا کہ آج کا ناسچ کل کاسچ ہو گا اور آج کا سچ کل کا ناسچ ہو گا ۔اس کی مثال خواب اقبال سے قیام پاکستان تک کے حال کی صورت میں ہم سب دیکھ سکتے ہیں۔ تو یہ وہ جذبہ ہے جو ادیب سے لکھواتا ہے۔
سرگودھا کے معروف ترین ادیب ٖ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم اس کتاب پر اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں ”کنیز بتول نے اپنے زاویہ ہاٰئے نگاہ مذکور مضامین میں قرآنی آیات فرمودات اور اشعار کا سہارا لے کر منفرد انداز اپنانے کی کوشش کی ہے ۔ان مضامین کے عمیق مطالعے سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ مصنفہ میں افسانہ لکھنے کی بھر پور صلاحیت موجود ہے ۔زندگی کی دھوپ چھاٶں میں تخلیق کے لیے کوئی موسم نہیں ہوتا ۔یہی وجہ ہے کہ کنیز بتول کے مضامین میں سارے موسم محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔اس کے مشاہدات تخلیقی تاج محل کی راہداریوں سے ہو کر گذرتے ہیں ۔اس کے مضامین میں حالات کی سب وسعتیں سمٹ کر یکجا ہو چکی ہیں۔ خارزار ادب میں کنیز بتول کا ابھی آغاز ہے۔ اسے آگے بڑھنا ہے۔ اس کے قلم میں قوت اور ذہن میں ہزاروں خیالات مجتمع ہیں ۔ان کی اس کتاب بارے ایک سینیر جر نلسٹ جناب سید غضنفر ہاشمی جو ان کی یہ تحریریں اہم ترین اخبارات میں دیکھ چکے ہیں۔ کہتے ہیں
تحریروں کی پاکیزگی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کنیز بتول کو اللہ نے کسی خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ویسے تو انسانوں کے ساتھ ساتھ جتنی بھی مخلوقات ہیں ہر مخلوق کی تخلیق کا ایک مقصد ہے ۔ہر مخلوق کے ذمے ایک کام ہے ۔جب وہ کام ہو جائے تو مخلوق عمر پوری کر کے واپس اپنے خالق کے پاس پہنچ جاتی ہے ۔اس انداز میں دیکھیں تو شاید کنیز بتول کی تخلیق کا مقصد ان کی تحریروں کے ذریعے فلاح انسانیت ہے ہےاگر ایسا ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ کنیز بتول اس فرض کو بطریق احسن انجام دے رہی ہیں۔
ویسے قارئین مضمون نگاری کی روایت کے آغاز کے اہم نام دیکھیں تو ان میں سرسید احمد خان ،مولانا محمد حسین آزاد ،مولانا شبلی نعمانی ،نواب وقار الملک ،نواب محسن الملک اور مولانا محمد علی جوہر کے نام دکھائی دیں گے عہد حاضر میں مختار دوست۔۔۔۔۔آواز دوست والے عظیم مضمون نگار کچھ سائنسی کچھ اخلاقی مضمون نویس موجود ہیں مذکورہ تمام موضوعات سے یہ لدی کتاب ہے جس میں زور بیاں بھی ہے سوچ کا کنایہ بھی ۔اسلوب کی ندرت بھی اور قلم کاری کی جرات بھی یہی کہا جا سکتا ہے دراحسا س پہ دستک کنیز بتول کھوکھر کے ارتکاز فکر کاآئینہ ہے ۔انہوں نے وطن عزیز کے منتشر معاشرے کو مستحکم کرنے کے لیے اہل زمین کو دعوت فکر دی ہے جو ہر عہد کا مصنف اپنی تخلیقی توانائی کی افتاد طبع سے بانٹتا ہے کہ یہ ہیرے موتی پتھر کے الفاظ نہیں ۔یہ کسی ایک دن کا تجربہ اور ایک لائن نہیں یہ پامالیء انسان کے بعد کا جرگہ نہیں ۔یہ مسلمانوں کو منقسم کر نے کی راہ نہیں ۔یہ تھکن جو لکھنے میں لگی ان کی روح کو زیادہ اجالا دے گئی کہ یہ سیاست زمانہ سے پاک ہے ۔یہ آنکھ کے اندر آنسو کا موتی ہے جو ضمیر کے بادل کی گرج کی بعد کی برسات سے ہویدا ہوا ہے ۔ غرضیکہ خون جگر سے لکھے یہ پیغام ،یہ تحریریں بلاشبہ زندگی آمیز بھی ہیں زندگی آموز بھی ۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ عظیم بابرکت ذات والاصفات محترمہ کنیز بتول کھوکھر کا زور قلم اور زیادہ کرے۔ آمین