بسم اللہ الرحمن الرحیم

علاقائی

آہ میرے صحرا کے ہیرے ۔۔۔ آرٹسٹ آف تھل استاد اقبال شاہد — ایک عہد جو تمام ہوا

خصوصی تحریر

اس کو کاندھوں پہ لے جا رہے ہیں وسیمؔ

اور وہ جینے کا حق مانگتا رہ گیا

اللہ تعالیٰ علاقہ تھل کے نامور آرٹسٹ استاد اقبال شاہد کے درجات بلند فرمائے جو دار فانی سے کوچ کرچکے ہیں۔ آرٹسٹ آف تھل کئی دہائیوں سے تھل میں برش پکڑے، رنگ بکھیرتے، شعر و ادب کا سہارا لے کر کلچر کی عکاسی کرتے اور پینٹنگ کے فیلڈ میں مختلف ٹرینڈز سیٹ کرتے رہے "استاد اقبال شاہد” کو آرٹسٹ آف تھل کا خطاب دینا میرے نزدیک ان کی منفرد اور گراں قدر خدمات کا اعتراف ہے۔ استاد جی کے سٹو ڈیو کی دیوار پہ متذکرہ بالا تصویر میں ان کے ہاتھ سے لکھا وسیم بریلوی کی غزل سے ان کا پسندیدہ شعر:

آندھیوں کے ارادے تو اچھے نہ تھے

یہ دیا کیسے جلتا ہوا رہ گیا

استاد جی جہاں بچوں، بڑوں کو ہمیشہ خوشخطی کی جانب راغب کرتے آئے وہاں اپنی پسند کے اشعار مختلف مقامات پر لکھ لکھ کے اردو اور سرائیکی شاعری کے فروغ میں بھی بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں، جس طرح وسیم بریلوی کا متذکرہ بالا شعر انھوں نے اپنےسٹوڈیو کے باہر لکھ رکھا تھا۔ ان کا اشارہ دراصل حوادث زمانہ کے باوجود دہائیوں سے جاری اپنے ہی کام کی طرف تھا۔ بلاشبہ اس شوق نے استاد جی کو زبردست مقام اور باعزت روزگار دیا ، جس کا ثبوت معاشرے میں ان کے احترام اور مقبولیت کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کی طرح ماضی میں استاد جی کے برش نے بھی کئی ٹرینڈز وائرل کیئے ۔۔۔ "سڑدا کیوں ایں دعا چ کر، کیوں سڑدا ایں او کوہڑا وغیرہ نیز معروف سرائیکی شعراء کے زبردست قسم کے مصرعے”۔
ان کا اپنے حوالے سے بھی یہ جملہ بلکہ دعویٰ مشہور ہے "بال سے زیادہ باریک اور ہاتھی سے زیادہ موٹا لکھنے والا- اقبال شاہد”۔ اکثر لوگ فرمائشی طور پر ان سے اسی ٹرینڈ کے مطابق لکھائی کرواتے ، پینا فلیکس اور گرافکس اپنی جگہ لیکن استاد کے برش کا آج بھی کوئی جوڑ نہیں۔ استاد جی نے جھمٹ جنوبی کی جڑ فیملی سے اپنا ایک شاگرد کنول عباس بطور ایمرجنگ آرٹسٹ تیار کیا ۔ اس نوجوان کا کام اور شوق بھی قابل تحسین ہے، ایک دن اپنے استاد کی جگہ لے گا، ان شاء اللہ۔ تھل میں ابھی تک رجحان اچھا ہے کسی حد تک، عرفان اجمل جھمٹ جیسے تھل واسی بھی پڑھائی لکھائی مکمل کرکے خوشخطی کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ ویسے تو لکھائی و پینٹنگ میں جو ملکہ محترم عبدالستار عاطف ، دانش آرٹسٹ اور خطاطی میں محترم رستم علی ساقی کو حاصل ہے اس کا کوئی جواب نہیں، لیکن استاد اقبال شاہد کی اس شعبے میں خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ متذکرہ بالا خطاب انھی کا بنتا ہے، 4 دہائیوں سے تو ہم انھیں دیکھتے آرہے ہیں۔ استاد اقبال شاہد طویل عرصے تک یہ خدمت کرتے رہے،

بقول شخصے ۔۔۔۔ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں ۔۔۔
ان کی خدمات لوک ورثہ کے طورپر محفوظ کر لینے کے قابل ہیں کیونکہ ہمیشہ اس کام کو فن و ثقافت کے فروغ کے لحاظ سے ان کی کاوش تصور کیا جائے گا۔ :لندن سے یہ اضافہ کرتے ہیں
"ہم جب دادی اماں کے سامنے 100 روپے کا ذکر کرتے تھے تو وہ فرماتی تھیں ” 100 کتنا ہوندا مرولا؟؟؟”
پھر کوئی سمجھدار آگے بڑھتا اور کہتا ” اماں ! پنج ویہاں ” پھر بات آگے بڑھتی۔۔۔۔ استاد جی کی بھی 5ویں دہائی مکمل ہوئ ہے اس شعبے میں۔

اس بہانے وسیم بریلوی کی پوری غزل بھی احباب کی نذر ہو:

آتے آتے مرا نام سا رہ گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا

رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی
دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا

وہ مرے سامنے ہی گیا اور میں
راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا

جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا

آندھیوں کے ارادے تو اچھے نہ تھے
یہ دیا کیسے جلتا ہوا رہ گیا

اس کو کاندھوں پہ لے جا رہے ہیں وسیمؔ
اور وہ جینے کا حق مانگتا رہ گیا

اللہ تعالیٰ فن کو فروغ دینے والے اساتذہ کرام اور ان کے شاگردوں کو خوش و خرم نیز خوشحال رکھے، آمین۔

اشتہار
Back to top button