بسم اللہ الرحمن الرحیم

جموں و کشمیر

6 نومبر 1947، یوم شہداء جموں

جموں کے نواحی علاقوں سے پاکستان ہجرت کے وقت جموں کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا

یوم شہداء جموں ہر سال 6 نومبر کو جموں کشمیر ، آزاد جموں کشمیر ، پاکستان اور دنیا بھر میں ان لوگوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے نومبر 1947ء کے پہلے ہفتے میں جموں کے نواحی علاقوں سے پاکستان ہجرت کے وقت جموں کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
پاکستان کے قیام کے وقت جموں کشمیر کے مسلمانوں نے بے حد خوشی اور مسرت کا اظہار کیا تھا اور قیام پاکستان سے پہلے 19 جولائی 1947ء کو جموں کشمیر میں اس وقت کی بڑی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے متفقہ طور پر پاکستان سے الحاق کی قرار داد پاس کی تھی۔ 14 اگست کو جموں کشمیر کے ہر شہر اور قصبے میں چراغاں کیا گیا اور پاکستان کے حق میں جلوس نکالے گئے۔ پاکستان زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد، نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت ؐ اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے بلند کیے گئے۔ اس جوش و خروش کو دیکھ کر ڈوگرہ حکومت لرز گئی۔ کانگریسی رہنمائوں نے انگریزوں اور شیخ عبداللہ کے ساتھ مل کر 27 اکتوبر 1947ء کو ایک منصوبے کے تحت بھارت کے مسلح افواج کو رات کے اندھیرے میں جموں کشمیر میں اتار دیا تھا۔ اسی منصوبے کے تحت جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لئے گھرائو جلائو شروع کر دیا گیا۔ ادھم پور ، راجوری ریاسی، رام نگر، بانیال، کٹھوہ کوٹلی اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کو خون سے رنگین کر دیا گیا۔ ہزاروں باشندوں کو گھروں سے باہر نکال کر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ہزاروں عفت مآب بچیوں اور خواتین کو اغواء کر لیا گیا۔ یہ قتل عام اتنی منظم سازش سے ہوا کہ جموں شہر خبر نہ پہنچ سکی۔ اور جب نومبر 1947ء کے ابتدائی دنوں میں جموں شہر میں قتل عام ہوا تو سرینگر کے لوگوں کو علم نہ ہو سکا۔ یہ سب کچھ کانگریسی حکومت اور اس وقت کانگریس کے صدر اچاریہ کرپلانی کے ایماء پر ہوا۔ جب وہ کشمیر گئے تو واپسی پر جموں کے مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دے کر آئے۔ اس وقت رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس اور اے آر ساغر جیل میں تھے۔ مسلم کانفرنس قیادت کا فقدان تھا۔

ان مشکل دنوں میں میاں نصیر الدین، محمد شریف ٹھیکیدار، منشی معراج دین اور چوہدری عبدالحمید نے جس دلیری اور شجاعت سے مقابلہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ جب گھرائو جلائو شروع ہوا تو مسلمان جموں کے نچلے حصے میں آگئے اور مورچے بنا لیے۔ اس موقع پر مستری عطاء محمد نے اپنی تین بچیوں کو خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کرکے سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کی۔ کشمیری رہنماء چوہدری غلام عباس کی بچیوں کو بھی اغواء کر لیا گیا۔ حکومت اور کانگریس کی سرپرستی میں جن سنگھی غنڈے خواتین کی آبروریزی اور لوٹ مار کر رہے تھے۔

جب حکومت اور کانگریس نے دیکھا کہ مسلمان قابو میں نہیں آ رہے تو اعلان کیا گیا کہ پاکستان جانے کے خواہشمند اپنا سامان لے کر پولیس گرائونڈ پہنچ جائیں۔ اس موقع پر میاں نصیر الدین اور گورنر جموں کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے کہ جب حالات ٹھیک ہو جائیں تو مسلمان واپس آ جائیں اور پر امن طریقے سے پاکستان پہنچانے کا وعدہ کیا گیا۔

پاکستان کے عشق میں جموں کشمیر کے لوگ اپنے آبائو اجداد کے میراثوں کو چھوڑ کر پولیس لائن جمع ہو گئے۔ لوگوں کو سینکڑوں گاڑیوں میں سوار کر کے کٹھوا ، ماوا، چیت گڑھ استواری و دیگر مقامات پر لا کر شہید کر دیا گیا۔ یہ داستان چار ، پانچ، چھ نومبرکو بالترتیب دہرائی گئی۔ اور نازیت کی روح بھی کانپ اٹھی۔ شیطان نے بھی اپنا چہرہ چھپا لیا۔ جموں ، ادھم پور، رجوری، ریاسی اور کٹھوا کے مسلمانوں کی اکثریت نے جام شہادت نوش کیا۔ اس کی تصدیق ہندو اور تمام غیر جانبدار مورخین نے بھی کی۔ اور لکھا کہ اس دوران پانچ سے چھ لاکھ تک مسلمان شہید ہوئے۔ آج بھی جموں کشمیر میں 13 جولائی 1931ء ، 27 اکتوبر 1947ء ، 6 نومبر 1947ء شہداء جموں کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ نسل کشی جاری ہے۔ دھونس ، دھاندلی سے الیکشن کرا کر ہمیشہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں اس پر جموں کشمیر کے لوگ سراپا احتجاج ہے۔ اور بھارت کی 10 لاکھ سے زائد مسلح افواج سے لڑ رہے ہیں۔ تو اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کی آڑ میں پر امن جموں کشمیر کے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اسی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان چار جنگیں ہو چکی ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ کے اقدامات 5 اگست 2019ء کے بھی قابل مذمت ہیں۔

کیونکہ 1960ء تک بھارتی حکمران UNO کی قرار دادوں پر عمل درآمد کرنے اور حق خود ارادیت دینے کے وعدے کرتے رہے لیکن اب مودی حکومت کے اقدامات نے ان سب کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے۔ اگر بھارت سمجھتا ہے کہ جموں کشمیر کے لوگ اس کے ساتھ ہیں تو جموں کشمیر میں ریفرنڈم کرا لے۔ خود ہی فیصلہ ہو جائے گا۔ جو کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوں۔ مسئلہ جموں کشمیر کی وجہ سے پانی سمیت دیگر کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اگر بھارت نے اپنا رویہ درست نہ کیا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑی اور خوفناک جنگ ہو سکتی ہے جو کہ جنوبی ایشیاء کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

اشتہار
Back to top button