بسم اللہ الرحمن الرحیم

بین الاقوامی

جرمنی اور چار دیگر یورپی ممالک سریع الحرکت فوج بنائیں گے

جرمنی، فن لینڈ، نیدرلینڈز، پرتگال اور سلووینیہ نے سریع الحرکت فوج کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق جرمنی، فن لینڈ، نیدرلینڈز، پرتگال اور سلووینیہ کی اس سریع الحرکت فوج قائم کرنے  کا بنیادی مقصد ہنگامی حالات اور مستقبل کے کسی عسکری بحران کی صورت میں فوری ردعمل ظاہر کرنا ہے۔

اس نئی کثیر الملکی فوج کو سائبر اور خلائی صلاحیتوں سے بھی لیس کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہنگامی حالات کو دیکھتے ہوئے ان فوجی دستوں کی کسی بھی مقام پر منتقلی بھی اہم ہو گی۔ اس فوج کے خصوصی کمانڈو دستے بھی تشکیل دیے جائیں گے۔

اس عسکری پیش رفت میں ان چار ممالک کے عسکری ماہرین بھی شامل ہیں۔ ان تمام ممالک کے پندرہ سو فوجی اس فوج کا حصہ ہوں گے اور جسے ہمہ وقت کسی بھی عسکری کارروائی کے لیے تیار رکھا جائے گا۔

ان ممالک کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں افغانستان کے حالات و واقعات میں ہونے والی تبدیلیاں تقاضا کرتی ہیں کہ ایک ایسی فوج ضروری ہے جسے فوری طور پر حرکت میں لایا جا سکے اور  جس کی کسی بھی مقام پر تعیناتی ممکن ہو۔

مبصرین کے مطابق یورپی یونین کے لیے اس کثیر الملکی فوج کو ہنگامی حالات میں استعمال کرنا ممکن ہو سکے۔

اس فوج کی تشکیل کے حوالے سے ان پانچوں ملکوں نے یورپی یونین  کے آرٹیکل چوالیس کو قابل عمل بنانے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ سفارت کاروں کا خیال ہے کہ یورپی یونین کے معاہدے کے بعد سے اس آرٹیکل چوالیس کو متحرک کرنے کی سوچ یورپی ملکوں میں ضرور پائی جاتی تھی لیکن اسے فعال نہیں بنایا گیا۔اس آرٹیکل میں واضح کیا گیا ہے کہ یونین کی رکن ریاستیں سلامتی یا سکیورٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اس وقت مجاز ہوں گی جب کوئی دوسرا غیر شریک ملک انہیں سکیورٹی امور میں شامل ہونے کی اجازت دے گا۔یورپی یونین کی ایسی منصوبہ بندی بھی ہے کہ رکن ریاستیں علاقائی تعاون کے انتطامات میں عملی طور پر شامل ہوں۔ ابھی مجوزہ کثیر الملکی فوج کے حجم کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم اس بنیادی امور میں یہ بھی فیصلہ شامل ہے کہ ایک بریگیڈ میں کم از کم پانچ ہزار پیدل یا زمینی فوجی شامل ہونے چاہییں۔

جرمن وزیر دفاع آنیگریٹ کرامپ کارین بار نے اس تجویز کو خوش آئند اور قابل عمل قرار دیا ہے۔ انہوں نے جرمن براڈکاسٹر ڈوئچ لینڈ فنک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مغربی دفاعی اتحاد میں شامل دستے امریکی مدد کے بغیر میدانِ عمل میں اتر نہیں سکتے اور ری ایکشن فورس ایک متبادل ضرور ہے۔دوسری جانب جرمنی کی بائیں بازو کی سیاسی جماعت لیفٹ پارٹی نے اس تجویز کو فوری طور پر مسترد کر دیا ہے اور یہ بھی کہا کہ یورپی رہنماں نے افغانستان کے حالات و واقعات سے غیر درست نتائج اخذ کیے ہیں۔ لیفٹ پارٹی کے ڈپٹی لیڈر ٹوبیاس فلوئیگر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مختلف اقوام جمہوریت کو عسکری قوت کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش میں تھیں اور یہی سب سے بڑی حماقت قرار دی جا سکتی ہے۔

Back to top button