بسم اللہ الرحمن الرحیم

کورونا وائرس

پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ ماہرین صحت

کراچی(صباح نیوز)

پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہوچکا ہے۔ ملک میں اس وقت 80 ہزار کورونا وائرس کے کیسز ہیں جبکہ کورونا سے 1600 تک اموات پہنچ چکی ہیں جبکہ کورونا سے 1600 بچے بھی متاثر ہو چکے ہیں ۔ ماہ رمضان میں ساڑھے بارہ ہزار کیسز تھے،  کورونا کے کیسز میں   پانچ گنا اضافہ ہوا اور یہ اضافہ گزشتہ دو ہفتے کے دوران ہوا  ہے ۔ ملک بھر میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ ان خیالات کا اظہارپاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، پاکستان سوسائٹی آف ای این ٹی، پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن سمیت ڈاکٹر تنظیموں  نے بدھ کو کراچی پریس کلب میں منعقدہ  مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے   پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما )کراچی کے صدر ڈاکٹر عظیم الدین نے کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز اور اس سے ہونے والی اموات میں تشویش ناک حد تک اضافے پر   اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ  عید کے بعد سے  ملک میںکورونا کے مریضوں میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔  پاکستان میں مریضوں کی تعداد تقریبا 80 ہزار اور اموات سولہ سو  سے زائد ہو چکی ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ یکم رمضان کو یہ تعداد بارہ ہزار 500 اور اموات 269 تھی۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ان مریضوں کی 34 فیصد تعداد صرف کراچی میں موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تشویشناک صورتحال کے بعد  پیما حکومت سندھ سے ھیلتھ ایمرجنسی کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس موقع پر پیما کے  رہنما ڈاکٹر مصباح العزیز نے بتایا کہ کوویڈ کے لیے مختص وینٹی لیٹرز بہت کم ہیں۔حکومت جو اعدادوشمار بتا رہے عملا وینٹیی لیٹرز کی تعداد انتہائی کم ہے۔ سول اسپتال میں سہولیات میں اضافہ اعلان کیا گیا ہے۔ ان کا  کہنا تھا کہ اباسپتالوں میں تشدد اور جھگڑے بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ہیلتھ ورکرز کے کورونا سے متاثر۔ہونے کی شرح دنیا بھر میں زیادہ ہے۔ڈاکٹرز تشدد سے زیادہ پریشان ہیں۔ڈاکٹرز ہڑتال پر گئے تو مریضوں کو جو سہولیات مل رہیں وہ بھی نہیں ملیں گی۔اس کیے ہڑتال کے آپشن کو استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسپتال انتظامیہ آئیسولیشن وارڈز اور اسپتالوں میں سیکورٹی میں اضافہ کرے۔جو ہیلتھ ورکرز علاج معالجے میں مصروف ہیں وہ کورونا سے متاثر ہوں تو انہیں ترجیح دی جائے۔ڈاکٹروں کے لیے بستر مختص کیے جائیں۔نجی اسپتال بھی اپنے اسپتالوں میں عملے کے لیے بستر مختص کرے۔ ڈاکٹر مصباح کا کہنا تھا کہ ماسک ہر شہری ضروری کرلیاس کے نتیجے میں 80 فیصد وائرس سے بچاؤ ممکن ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ٹیسٹ کی سہولت بڑھائی جائے۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ سوشل میڈیا پر کوروناکے خلاف مہم چل رہی ہے۔اس شہر کی آدھی آبادی کورونا کو بیماری نہیں سمجھتی۔ پریس کانفرس میں  پروفیسر سہیل اختر کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ اور وفاق سے شدید ناراضی ہے،چار ماہ سے انہوں نے کیا تیاری کی۔ہم فروری سے انہیں متنبہ کرتے رہے لیکن سہولیات میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی میں 12 اسپتال جن میں سول، ٹراما سینٹر، جناح، ڈاؤ، انڈس، ایس آئی یو ٹی، لیاری،عباسی اسپتال، آغاخان، ضیاء  الدین اسپتال کے تین کیمپس شامل ہیں ان میں آئیسولیشن بیڈز کی تعداد صرف  433 ہے جبکہ اس وقت 300   فل  ہو چکے ہیں۔140 لیاری میں خالی ہیں اس لیے کہ وہاں سہولیات موجود نہیں اور وہ خالی ہیں۔ ڈاکٹر سہیل اختر کا کہنا تھا کہ ایچ ڈی یو بیڈز 259 ہیں 251 فل ہیں جو خالی ہیں وہ لیاری اسپتال کے ہیں جہاں سہولتیں نہیں،آئی سی یو بیڈز کی تعداد  147 بیڈز ہیں جن میں سے 115  بھر چکے  ہیںجسکا مطلب ہے وہاں 85 فیصد فل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اعدادوشمار بتاکر عام لوگوں کودھوکہ دیا جا رہا۔اندرون سندھ زیادہ تر بیڈز خالی ہیں۔حکومت رپورٹ میں سندھ کا اعدادوشمار ملاکر غلط بیانی کرتی ہے۔این ڈی ایم اے آرام سے کہہ دیتا ہے 75فیصد وینٹی لیٹرز فری ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسپتالوں کا آکر دورہ کریں پھر بات کریں۔ ڈاکٹر سہیل اختر کا کہنا تھاکہ ہم نے ڈیش بورڈ کا مطالبہ کیا تھا کہ ایک سینٹرلائزڈ نمبر جاری کیا جائے ۔ایمبولینس والے اس نمبر پر کال کرکے وینٹ اور بیڈز کی سہولیات کا معلوم کرے۔ڈاکٹر فرقان کے انتقال کو ایک مہینہ ہوچکا ۔ہم کریٹیکل مریضوں کو گھروں پر مینیج کر رہے۔اگر کسی مریض کی آکسیجن 80 ، 85 ہوتو اسے اسپتال میں ہونا چاہیے۔ہزاروں لوگ گھروں پر ہوم آئیسولیشن میں رسک پر ہیں۔اسپتالوں میں جگہ نہیں ہے ۔ایکسپو سینٹر میں وینٹی لیٹرز میں 520 بیڈز ہیں جس میں 75 فل ہیں۔اگر وہاں آکسیجن والا مریض مینیج نہیں کرسکتے تو ایکسپو سینٹر کا کیا فائدہ۔ان کا کہنا تھاکہ گڈاپ اسپتال کی صورتحال کیا ہے کسی کو معلوم نہیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے   ڈاکٹر جلال اکبر کا کہنا تھا کہ 26 فروری سے جو ڈیٹا شروع میں ملا اس سے یہ لگا کہ بچے کم متاثر ہوئے ۔جوں جوں وقت گزرا بچوں میں تیزی سے کیسز کا اضافہ ہوا۔بچوں میں علامتیں بڑوں سے مختلف ہیں۔جراثیم تیزی سے خود کو تبدیل کر رہا۔اس وقت سندھ میں دس سال سے کم عمر 1600 بچے کورونا وائرس سے متاثر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو شاپنگ اور رش والی جگہوں پر لے  جانے سے بچے متاثر ہو رہے ہیں اوربچوں کا انفکشن تیزی سے بڑوں میں منتقل ہوتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ کووڈ کی وجہ سے بچوں کی ویکسینیشن بری طرح متاثر ہوئی ہے۔پولیو، تشنج، کالی کھانسی سمیت دیگر بیماریوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔والدین بچوں کو حفاظتی ٹیکے ضرور لگوائیں۔دو سال سے کمر عمر بچوں کو مائیں اپنا دودھ پلائیں تاکہ قوت مدافعت میں اضافہ ہو۔اس موقع پر سربراہ دعا فائونڈیشن ڈاکٹر فیاض عالم کا کہنا تھا کہ کورونا کے معاملے پرمیڈیا نے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے بری طرح ناکام رہے ہیں۔ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیںاوراسپتالوں کے دورے نہیں کیے ۔ انہوں نے کہا کہ کتنی بار وفاقی وزیر صحت اور این ڈی ایم اے کے چیئرمین کراچی آئے،ہم نے سندھ بھر کے اسپتالوں میں حفاظتی سامان فراہم کیا ، انہوں نے سوال کیا کہ حکومت کدھر ہیں؟ان کا کہنا تھاکہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے حکومت سے بڑھ کر کردار ادا کیا۔ہم نے محدود ہونے کے باوجود سرکاری اسپتالوں کو سامان فراہم کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت سندھ پانچ ارب روپے پی پی ایز کے لیے مختص کرے جس کی تقسیم پی ڈی ایم اے کے ذریعے نہ ہو۔ ڈاکٹر فیاض عالم کا مذید کہنا تھاکہ ڈاکٹر مر رہے ہیں کیا ان کے بیوی بچے نہیں ہیں ،اوپی ڈیز کھلی ہیں،حکمران آنکھوں کے اندھے ہیں،انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔انہوں نے  خدشے کا اظہار کیا کہ کراچی میں کورونا کے لاکھوں مریض ہوں گے ،ٹیسٹ کی سہولیات تو بڑھائیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں پی پی ایز چاہئیں،عیاشی کا سامان نہیں مانگ رہے۔

Leave a Reply

Back to top button