موسم بہار کے تہوار سے چند روز قبل چین کے مشرقی صوبے شان ڈونگ کے شہر چھنگ ڈاؤ میں واقع چائنہ یونیورسٹی آف پیٹرولیم (مشرقی چین) نے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا،اس میں پاکستان جیسے ممالک کے بین الاقوامی طلبا جشن منانے کے لئے اکٹھے ہوئے، تعطیلات کے تہوار کے ماحول میں لطف اندوز ہو تے ہو ئے انہوں نے ڈمپلنگز بنائیں، اشعار لکھے اور "فو” لفظوں کو پیش کیا۔
24 سالہ پاکستانی طالب علم یاسین خان نے ڈمپلنگ بنانے میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ کھانا تیار کرنے کی خوشی سے انہوں نے روایتی چینی ثقافت کو قریب سے سمجھا۔
یاسین 5 ماہ سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کررہے ہیں اور اگلے 7 سال کے دوران چین میں ماسٹر اور پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بہارتہوار منا نے کا یہ میرا پہلا موقع ہے اور مجھے یہ بہت پرکشش لگتا ہے۔شاندار سجاوٹ، لذیذ روایتی پکوان اور خوشی کے جشن نے ایک خوش آمدید اور پرجوش ماحول پیدا کیا ہے، اس نے چینی روایتی ثقافت سے متعلق مزید جاننے کا موقع بھی فراہم کیا۔ چینی بہار میلہ نہ صرف چین کی روایتی ثقافت کے احترام کو ظاہر کرتا ہے بلکہ لوگوں کو اس کی طویل تاریخ اور ثقافتی اعتماد کا تجربہ کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔
یاسین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی جڑیں باہمی احترام اور تعاون پر مبنی ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات کا اظہار ہیں۔اس وقت یہاں تقریباً 60 پاکستانی طالبعلم ہیں جن کا بنیادی مضمون انجینئرنگ ہے۔
یونیورسٹی کے بین الاقوامی طلبا قونصلر سوہوئی نے کہا کہ پاکستانی طلبا چین میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے نہ صرف وسیع پیشہ ورانہ معلومات حاصل کرتے ہیں بلکہ مختلف ثقافتی سرگرمیوں، عوامی رابطوں اور دوستانہ تبادلوں کے فروغ سے ملک سے متعلق اپنی تفہیم میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔
لاہور کی طالبہ بشریٰ محسن اس وقت ارضیاتی وسائل اور ارضیاتی انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ ڈیڑھ برس تک چین میں رہنے کے بعد انہیں موسم بہار تہوار جیسے روایتی تہواروں کا تجربہ کرنے کا موقع ملا ہے۔
شِنہوا کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے اس بات کی تعریف کی کہ کس طرح چین نے جدیدیت کی راہ پر چلتے ہوئے مسلسل اپنی روایتی ثقافت کے تحفظ اور ترقی پر توجہ دی ہے ۔ ان کی رائے میں یہ نکتہ نگاہ ثقافتی ورثے کے تحفظ کی کوششوں میں دوسرے ممالک کے لئے قابل قدر سبق فراہم کرتا ہے۔
بشریٰ محسن نے کہا کہ اس دوستی کی جڑیں بنیادی سہولیات، تعلیم اور ثقافت جیسے شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان طویل مدتی تبادلوں اور تعاون پر مبنی ہیں جو میرے جیسے طالب علموں کو مزید مواقع فراہم کرتی ہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک اہم جزو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو تقریباً 12 برس ہوچکے ہیں اور اس نے پاکستان کے توانائی، بجلی اور بنیادی سہولیات کے شعبوں میں نمایاں کردارادا کیا ہے۔
یاسین نے خواہش ظاہر کی کہ یہاں حاصل کئے جانے والے علم کو سی پیک کی ترقی اور قابل تجدید توانائی اور بنیادی سہولیات جیسے شعبوں میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کے فروغ میں استعمال کیا جائے گا۔
سرگودھا کے 32 سالہ طالبعلم ملک ارسلان اس وقت چھنگ ڈاؤ یونیورسٹی سے انتظامی امور میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کررہے ہیں۔
ارسلان نے موسم بہارتہوار سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس روایتی تعطیل سے لطف اٹھایا ہے۔ گزشتہ برس انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ موسم بہار کا تہوار منایا اور یہ ایک حیرت انگیز تجربہ تھا۔
ان کے لئے موسم بہارتہوار خاندان کے دوبارہ ملنے، لذیذ پکوانوں اور مختلف رسم و رواج کی علامت ہے،اس میں سرخ لفافے دینا، ڈریگن اور شیر رقص سے لطف اندوز ہونا اور نئے کپڑے پہننا شامل ہے۔
ارسلان نے کہا کہ چینی ثقافت دلچسپ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چینی عوام کا جوش و خروش، مہمان نوازی، حسن سلوک اور مضبوط خاندانی تعلقات ان کی ثقافتی نشانیاں ہیں جو اس کا تجربہ کرنے والوں پر دیرپا اثرچھوڑتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موسم بہار تہوار جیسی روایتی چینی ثقافتی تقریبات پاکستان ۔ چین دوستی اور رابطوں کے فروغ میں پل کا کام کرتی ہیں ۔ دونوں ممالک کے درمیان "گہری جڑیں، سدا بہار ” شراکت داری ہے جو سفارت کاری سے آگے بڑھ کر ثقافتی، اقتصادی اور شہری تبادلوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔
مستقبل پر نگاہ ڈالتے ہوئے ارسلان کو اس بات یقین ہے کہ سی پیک نے پاکستان کی اقتصادی ترقی آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سی پیک کے حوالے سے خدمات سر انجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ارسلان نے مزید کہا کہ یہاں کاروبار کے وسیع مواقع ہیں۔ وہ اس وقت سڑک کی تعمیر کرنے والی ایک کمپنی میں کام کررہے ہیں اور ایک چینی ادارے کو مقامی سپلائرز سے سامان لیکر دیتے ہیں۔