بسم اللہ الرحمن الرحیم

مضامین

بابائے قوم اور کشمیر

ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا ہو گا کہ ہم نے قائدؒ کے فرمودات پر کہاں تک عمل کیا اور قیام پاکستان کے مقاصد کے حصول میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ اتنے برسوں میں ہم نے قیام پاکستان کے مقاصد کہاں تک حاصل کئے ہیں۔

3جون1947ء کے تقسیمِ ہند کے فارمولے کے تحت ریاستوں کی آزادی اور الحاق کے بارے میں جو اصول طے ہوئے تھے، ان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ کشمیرکو پاکستان کا حصہ بننا تھا، لیکن جب کشمیریوں کو حق خود ارادیت کا موقع نہیں دیا گیا تو کشمیریوں نے اولاً 19 جولائی 1947ء کو الحاق پاکستان کی قرار داد منظور کی۔ بعد میں 24 اکتوبر 1947ء کو سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا ۔

قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اپنی کتاب ’’مائی برادر‘‘ میں بھی قائداعظمؒ کی کشمیر سے وابستگی اور تشویش کے بارے میں جو اشارہ دیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد اعظمؒ کشمیر کے بارے میں کس حد تک فکر مند تھے۔

آپ لکھتی ہیں کہ قائداعظمؒ کے آخری ایام میں ان پر جب غنودگی اور نیم بے ہوشی کا دورہ پڑتا تھا تو آپ فرماتے تھے کہ کشمیر کو حق ملنا چاہئے۔ انہوں نے آئین اور مہاجرین کے الفاظ استعمال کئے۔

قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 1926ء میں کشمیر کا دورہ کیا اور وہاں کشمیری زعما سے ملاقاتیں بھی کیں۔ اس وقت اگرچہ کشمیر میں تحریک حریت کے خدوخال زیادہ نمایاں نہیں تھے، لیکن کشمیری مسلمانوں کی حالت دِگرگوں تھی اور انہیں ہندؤوں کے مقابلے میں دوسرے تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔

قائدا عظم ؒ دوسری بار 1929ء، تیسری بار 1936ء اور چوتھی بار1944ء میں کشمیر گئے،جہاں آپ نے نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس کے اجلاسوں سے خطاب بھی کیا اور کم و بیش ڈیڑھ ماہ کے لگ بھگ کشمیر میں قیام کیا۔

قائداعظمؒ 47۔1946ء میں بھی کشمیر جانا چاہتے تھے، لیکن مصروفیات کے باعث نہ جا سکے۔1935ء میں قائداعظم ؒ کے دورۂ کشمیر پر ایک عظیم الشان جلسہ سرینگر پتھر مسجدمیں منعقد ہوا، جس میں چودھری غلام عباس نے سپاسنامہ پڑھا۔

قائداعظمؒ نے اپنے خطاب میں کہا: ’’مَیں آپ پر یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ آزادی کے لئے آپ کی جدوجہد اوربرٹش انڈیا میں میرے معاملات کے ساتھ اپنی ہمدردی اور نیک خواہشات ظاہر کریں گے۔ یقیناًآپ ایسا کریں گے ‘‘۔

یہ وہ وقت تھا جب قائداعظمؒ نے ایک سال پہلے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی تھی اور آپ تمام برصغیر میں مسلم لیگ کی تنظیم نو میں مصروف تھے۔ دوسری طرف کانگریس مسلمانوں کو اپنے اندر ضم کرنے کے لئے کوشاں تھی۔

جون 1944ء میں مسلم کانفرنس کا سالانہ جلسہ قائداعظمؒ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ چودھری غلام عباس کے سپاسنامے کے بعد قائداعظمؒ نے کشمیریوں سے خطاب فرمایا: ’’جب مَیں اس جلسے پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے خوشی اور یقین ہوتا ہے کہ مسلمان اب جاگ اُٹھے ہیں اور وہ مسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے کھڑے ہوگئے ہیں۔

مَیں ایک مہینے سے یہاں مقیم ہوں اور اس عرصے میں میرے پاس ہر خیال کے آدمی آئے ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ 99فیصد جو میرے پاس آئے ہیں، مسلم کانفرنس کے حامی ہیں۔مَیں آپ کو ہدایت دیتا ہوں کہ آپ صاف صاف اور کھلے الفاظ میں اعلان کریں کہ ہم مسلمان ہیں۔

عزت کا صرف ایک راستہ ہے، وہ ہے اتفاق و اتحاد، ایک پرچم،ایک نصب العین، ایک پلیٹ فارم۔ اگر آپ نے یہ حاصل کر لیا تو آپ یقیناًکامیاب ہوں گے۔

مسلم لیگ اور ہماری خدمات، تائید و حمایت آپ کے قدموں پر ہوگی‘‘۔۔۔ 1946ء میں جب کانگریسی رہنماء جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے سخت کوششیں کر رہے تھے، قائداعظمؒ نے ایک بار پھر جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو حالات سے آگاہ کرتے ہوئے اپنی رہنمائی عطا کی۔

قائداعظمؒ نے فرمایا: ’’مَیں جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اتحاد و یگانگت کو بہرکیف برقرار رکھیں اور چودھری غلام عباس کی قیادت اور مسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے جمع رہیں۔ 14اگست1947ء کو پاکستان تو بن گیا، لیکن کشمیر کا مسئلہ لٹک گیا ۔

 

اشتہار
Back to top button