بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

سپریم جوڈیشل کونسل کی جج مظاہر نقوی کو برطرف کرنے کی سفارش

سپریم جوڈیشل کونسل نے مستعفی جج مظاہر علی نقوی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دے دیتے ہوئے انہیں برطرف کرنے کی سفارش کردی۔سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 9 شکایات آئیں، انہیں مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عہدے سے ہٹانا چاہیے۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنی رائے صدر مملکت کو ارسال کردی ہے اور رائے پر صدر مملکت کارروائی کے مجاز ہیں۔

مزید کہا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے رول 5 میں ترمیم کردی ہے، رول 5 ججز کو شہرت سے بالاتر ہونے کا پابند بناتا ہے اور اس میں ترمیم کے بعد الزامات پر وضاحت دینے کا حق ججز کو دے دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ یکم مارچ کو سپریم کورٹ کے مستعفی جج مظاہر اکبر نقوی کے خلاف شکایات پر سپریم جوڈیشل کونسل نے کارروائی مکمل کرلی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کا شکایات پر آخری اجلاس چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوا تھا، گواہان زاہد رفیق اور سپریم کورٹ ایمپلائز کوآپریٹو سوسائٹی کے صدر شیر افگن عدالت کے روبرو پیش ہوئے پیش ہوئے تھے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم نے جسٹس مظاہر نقوی کی درخواست پر کونسل کی کارروائی اوپن کی تھی، اگر جسٹس (ر) مظاہر نقوی پیش نہیں ہونا چاہتے تو ہم زبردستی نہیں کر سکتے، ان کو دفاع کا موقع دیا گیا مگر وہ پیش نہیں ہونا چاہتے ہیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے برطرفی کی رائے اور  مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار  دینے پر سپریم کورٹ کے سابق جج مظاہر نقوی کا مؤقف سامنے آگیا۔جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی  نےکونسل کی رائےکو  چیلنج کرنےکا اعلان کرتے ہوئےکہا ہےکہ یہ یکطرفہ کارروائی تھی جس کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا، قانون جج کے استعفیٰ دینے کے بعد انکوائری  جاری  رکھنےکی اجازت  نہیں دیتا، صدر  نے استعفیٰ تسلیم کر لیا جسے سرکاری گزٹ میں شائع کردیا گیا۔

مزید پڑھیے  لاہور میں دفعہ 144کا نفاذ ختم کرنےکا نوٹیفکیشن جاری

مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ  جوڈیشل کونسل استعفےکو عہدے سے برطرف کرنے میں کیسے تبدیل کرسکتی ہے؟  شکایات درج کرانے سے پہلے ہی کئی کونسل ممبران نے میرے خلاف قبل ازوقت کارروائی کا مطالبہ کیا، میں نےکون سامس کنڈکٹ کیاہے؟عہدے کے غلط استعمال کے شواہدکہاں ہیں؟ یہ ریکارڈ کی بات ہےکہ تمام گواہان نے میرے حق میں گواہی دی۔

مظاہر نقوی کا کہنا ہےکہ  وہ  اس فیصلے کو چیلنج کریں گے اور  تمام کرداروں کو  بے نقاب کریں گے، ہم متعلقہ قانونی فورم سے رجوع کریں گے اور  میڈیا کو آگاہ کریں گے۔

 ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین جوڈیشل کونسل اور جسٹس سردار طارق اور جسٹس منصور علی شاہ  نے میرے خلاف کارروائی کے لیے خط لکھا، انصاف، شفاف ٹرائل اور طے شدہ طریقہ کار کے تحت انہیں کونسل کارروائی سے الگ ہوجانا چاہیے تھا، میں نے کونسل کے سامنے 26 درخواستیں جمع کرائیں کسی کا بھی جواب نہ دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ  عافیہ شہربانو اپیل زائدالمعیاد تھی جسے مجھے نشانہ بنانےکے لیے قابلِ سماعت قرار دیا گیا، اپیل کی سماعت اسی بینچ  نےکی جس نےمجھےعبوری ریلیف دینے سے انکار کردیا تھا، عدالتی معاون فیصل صدیقی کا خیال تھا کہ اپیل قابلِ سماعت نہیں انہیں بحث کرنےکی اجازت نہیں دی گئی، میں نے کہا تھا چیف جسٹس پاکستان کو ازخود نوٹس لینا چاہیے، میرے خلاف شکایات سیاسی نوعیت کی تھی اور  شکایت کرنے والوں کا  تعلق مسلم لیگ ن سے تھا۔

مظاہر نقوی کے مطابق  یہ سب 18 مئی 2022 کے نوٹ کے بعد شروع ہوا،  میں نے کہا تھا کہ  ن لیگ کرپشن کیسز  میں تفتیشی افسران کے تبادلے، تعیناتیاں  اور  نئی تقرریاں مشکوک  تھیں،  جب مسلم لیگ ن کا میڈیا ونگ میرے خلاف مہم چلا رہا تھا تو اسے روکا کیوں نہ گیا؟  چیئرمین جوڈیشل کونسل نےکارروائی کے دوران حقائق کو  غلط انداز  میں پیش کیا،  چیئرمین جوڈیشل کونسل نے جسٹس سردار طارق مسعود  اور جسٹس امیر بھٹی کی ریٹائرمنٹ سے پہلےکارروائی مکمل کی،  چیئرمین جوڈیشل کونسل نے جسٹس نعیم افغان کی سپریم کورٹ تقرری سے پہلے کونسل کی کارروائی مکمل کی۔

مزید پڑھیے  وزیراعظم کل کراچی گرین لائن کا افتتاح کرینگے
Back to top button