بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

کوپ 30:  لاس اینڈ ڈیمییج فنڈ تک رسائی کے لیے گورننس اور ادارہ جاتی اصلاحات ضروری قرار

اصلاحات  کے بغیر  پاکستان عالمی موسمیاتی مالیاتی فنڈ سے محروم رہ جائے گا

جیسے جیسے عالمی برادری سی او پی 30 (کوپ 30) کی تیاری کر رہی ہے، پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر اپنی گورننس، ادارہ جاتی صلاحیت، اور مقامی لچک (ریزیلئینس) کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ نقصان اور تلافی کے فنڈ (ایف ر ایل ڈی – فنڈ فار ریسپانڈنگ ٹو لاس اینڈ ڈیمیج) تک مؤثر رسائی کے طریقہ کار واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

اگرچہ یہ فنڈ پاکستان کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے، تاہم گورننس، استعداد کار، منظوری کے عمل (ایکریڈیشن)، اور منصوبہ جاتی تیاری میں موجود کمزوریاں اس تک بروقت رسائی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

موسمیاتی لچک پیدا کرنے کے لیے مربوط منصوبہ بندی، بین الاقوامی مالیاتی نظام کے بہتر فہم، قابلِ سرمایہ کاری منصوبوں، اور مقامی سطح پر وضع کردہ حکمتِ عملیوں کی ضرورت ہے۔ ان کے بغیر، پاکستان  یہ خطرہ مول لے رہا ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کے لیے بنائے گئے ان نئے عالمی مالیاتی  فنڈ سے محروم رہ جائے گا، جن کا مقصد موسمیاتی نقصانات کی تلافی ہے۔

ماہرینِ موسمیات نے ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد میں منعقدہ گول میز کانفرنس بعنوان "نقصان اور تلافی فنڈ کا عملی نفاذ: سی او پی 30 سے متعلق توقعات” میں کیا۔ اس تقریب سے خطاب کرنے والوں میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، معروف ماہرِ موسمیات اور ایف آر ایل ڈی بورڈ کے رکن علی توقیر شیخ، سینئر ماہرِ توانائی و معیشت عافیہ ملک، ماہرِ موسمیاتی مالیات محمد حماد بشیر، پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کی ڈائریکٹر پالیسی ڈاکٹر سائرہ قیصر، انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کے ریسرچ آفیسر طلحہ طفیل، عالمی بینک کے ماہرِ موسمیات اور کنسلٹنٹ ڈاکٹر عرفان یوسف، اور موسمیاتی ماہر حمید سرفراز شامل تھے۔

نقصان اور تلافی فنڈ کے عالمی فریم ورک پر روشنی ڈالتے ہوئے علی توقیر شیخ نے کہا کہ یہ فنڈ تخفیفِ اخراج (مٹیگیشن) اور مطابقت پذیری (آڈاپشن) کی کوششوں سے مختلف ہے، کیونکہ اس کا مقصد ترقی پذیر ممالک کو لچک پیدا کرنے کے اخراجات کے لیے معاوضہ فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس فنڈ کے تحت براہِ راست بجٹ سپورٹ کی منظوری ہوچکی ہے، تاہم رسک مینجمنٹ فریم ورک کی توثیق تک یہ عمل غیر فعال ہے  ۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ طریقہ کار کی پیچیدگیاں براہِ راست رسائی کو سست کر رہی ہیں، اور جب تک قومی سطح پر منظوری حاصل نہیں ہوتی، ممالک کو کثیر الجہتی اداروں پر انحصار کرنا ہوگا۔ انہوں نے زور دیا کہ منصوبوں میں ملکی ملکیت، قابلِ پیمائش نتائج، اور قومی نظاموں کے ساتھ مطابقت دکھانا ضروری ہے، جبکہ کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے 50 فیصد فنڈ مختص کرنا اور جغرافیائی توازن برقرار رکھنا بنیادی اصول ہیں۔

عافیہ ملک نے کہا کہ شدید موسمی واقعات پاکستان کے توانائی ڈھانچے پر پہلے ہی بھاری مالی بوجھ ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اپنے نظام کو موسمیاتی طور پر محفوظ بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ انہوں نے خریداری کے عمل میں موسمیاتی خطرات کے تجزیے اور لچک کو مدِنظر رکھتے ہوئے کم لاگت منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا۔ حماد بشیر نے پاکستان کی سی او پی 30 سے توقعات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی موسمیاتی مالیات کے نظام کی محدود تفہیم وسائل تک رسائی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے بینک کے قابل منصوبے تیار کرنے اور دستیاب مالیات و مقامی ضروریات کے درمیان خلا کو پُر کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے نقصان اور تلافی فنڈ سے مؤثر استفادے کے لیے چار کلیدی اصول — رسائی ، اضافیت ، کفایت ، اور جواب دہی — بیان کیے، جو شفاف، کافی اور منصفانہ مالیات کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔

ڈاکٹر سائرہ قیصر نے کہا کہ فنڈنگ کے معیار کو واضح طور پر سامنے لانا چاہیے، کیونکہ پاکستان میں کئی اسٹیک ہولڈرز تاحال یہ نہیں جانتے کہ قابلِ عمل منصوبہ تجویز کیسے تیار کیا جائے۔ انہوں نے زرِ مبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ سے فنڈز کو محفوظ رکھنے اور لچک پیدا کرنے کے لیے جامع قومی حکمتِ عملی وضع کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موسمیاتی تعلیم کو مضبوط کیا جائے تاکہ نئی نسل عالمی مالیاتی نظام میں مؤثر کردار ادا کر سکے۔

طلحہ طفیل نے زور دیا کہ ایسے سائنسی تحقیقی مطالعات کی ضرورت ہے جو اخراجات اور ان کے اثرات کے درمیان واضح تعلق قائم کریں۔ ان کے مطابق، ایسے شواہد پاکستان کے منصوبوں کو بین الاقوامی موسمیاتی فنڈز میں مضبوط بنیاد فراہم کریں گے۔ ڈاکٹر عرفان یوسف نے کہا کہ پاکستان کی موسمیاتی کمزوری کا اصل مسئلہ تیاری کا فقدان ہے۔ تعلیم، طرزِ فکر، اور ادارہ جاتی صلاحیتوں میں موجود خلا مؤثر ردعمل میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ صرف بیرونی فنڈز پر انحصار کے بجائے قومی سطح پر لچک پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔

حمید سرفراز نے اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ایف آر ایل ڈی کے تحت منظور شدہ ادارے وہی ہیں جو گرین کلائمیٹ فنڈ کے تحت بھی مؤثر کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ رسائی اب بھی ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) اور عالمی بینک جیسے اداروں کے ذریعے ہی ممکن ہے، جس سے مقامی فوائد محدود رہتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مقامی لچک سازی کے اقدامات کو ترجیح دی جانی چاہیے۔

اختتامی کلمات میں، خالد رحمٰن نے کہا کہ نقصان اور تلافی فنڈ سے پاکستان کے مؤثر استفادے کا انحصار پیشگی تیاری، بہتر گورننس، اور ادارہ جاتی مضبوطی پر ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پائیدار موسمیاتی لچک پیدا کرنے کے لیے پالیسی، تکنیکی اور مالیاتی پہلوؤں کو مربوط کرنے والی قومی حکمتِ عملی وضع کی جائے۔

اشتہار
Back to top button