
جموں کشمیر ایک ایسا تنازع ہے جو نہ صرف جنوبی ایشیا کی سیاسی فضا پر چھایا ہوا ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک مستقل چیلنج بن چکا ہے
کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما اور اسلامی تنظیم آزادی جموں کشمیر کے سربراہ جناب پیر عبدالصمد انقلابی
کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما اور اسلامی تنظیم آزادی جموں کشمیر کے سربراہ جناب پیر عبدالصمد انقلابی نے کہا ہے کہ جموں کشمیر ایک ایسا تنازع ہے جو نہ صرف جنوبی ایشیا کی سیاسی فضا پر چھایا ہوا ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک مستقل چیلنج بن چکا ہے، حالیہ واقعات، خصوصاً پہلگام حملے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی، اس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ دونوں بڑی ریاستیں—بھارت اور پاکستان—شاید کسی گہرے منصوبے پر عمل درآمد کی راہ ہموار کر رہی ہیں، یک دم ہوئی اس کشیدگی کو محض جذباتی ردعمل یا اتفاقیہ حالات قرار دینا سطحی تجزیہ ہوگا، حقیقت یہ ہے کہ اس جیسے سانحات کو بہانہ بنا کر سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیاں لانا کسی بھی ریاست کے لیے ایک آزمودہ ہتھیار ہوتا ہے۔
اسلامی تنظیم آزادی جموں کشمیر کے سربراہ پیر عبدالصمد انقلابی نے کہا ہے کہ جموں کشمیر کی موجودہ تقسیم پہلے ہی عملی طور پر ایک "ڈی فیکٹو” بندوبست ہے، جہاں جموں اور لداخ بھارت کے مکمل انتظام میں، جبکہ آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کی نگرانی میں ہیں۔ جموں کشمیر اس وقت دینی، سیاسی، سماجی، نسلی، اور عسکری دباؤ کا مرکز بنی ہوئی ہے، ایسے میں یہ خدشہ تقویت پکڑ رہا ہے کہ بھارت اور پاکستان غیر اعلانیہ طور پر کسی ایسے معاہدے یا بندوبست کی طرف بڑھ رہے ہیں، جہاں دونوں فریق اپنے زیر قبضہ علاقوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے عالمی فضا تیار کر رہے ہوں، اس کی ایک تاریخی مثال ڈکسن پلان کی صورت میں پہلے سے موجود ہے، جس میں یہی تجویز دی گئی تھی کہ مختلف خطوں کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔
اسلامی تنظیم آزادی جموں کشمیر کے سربراہ پیر عبدالصمد انقلابی نے کہا ہے کہ پہلگام جیسے واقعات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جموں میں مسلم دشمن جذبات کو ہوا دی جاتی ہے اور کشمیر وادی کو انتہا پسندی سے جوڑ کر اس کے الگ تشخص کو اجاگر کیا جاتا ہے، یہ بیانیہ آگے چل کر ریاستی پالیسیوں کا حصہ بن سکتا ہے، جس کا مقصد ریاست جموں کشمیر کے مختلف علاقوں کو علیحدہ سیاسی حیثیت دینا اور اس تقسیم کو جائز ثابت کرنا ہو سکتا ہے، پاکستان کی طرف سے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی کوششیں بھی اسی تناظر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اسلامی تنظیم آزادی جموں کشمیر کے سربراہ پیر عبدالصمد انقلابی نے کہا ہے کہ ان حالات میں جموں کشمیر کے لوگوں کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ اس عمل کا حصہ دار بنیں گے یا اس کے خلاف آواز بلند کریں گے، جموں کشمیر کے تمام لوگوں کو اب جذبات سے ہٹ کر حکمت عملی، اتحاد ملت، اور بیدار شعور کے ساتھ ایک پر امن، مؤثر اور عالمی سطح پر سنجیدہ اسلامی تحریک آزادی جموں کشمیر کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا، یہ وقت فیصلہ کن ہے، اگر خاموش رہے یا داخلی اختلافات کا شکار ہوئے، تو ممکنہ طور پر مستقبل میں ایک ایسی تقسیم مسلط ہو سکتی ہے جو نہ صرف جموں کشمیر کے لوگوں کی شناخت کو متاثر کرے گی بلکہ ایک دائمی بے چینی کو بھی جنم دے سکتی ہے، حالیہ آزاد جموں کشمیر کی خواتین کو جموں کشمیر سے واپس کرنا ظاہر کرتا ہے کہ جموں کشمیر کے لوگوں کو اب وقت سے پہلے بیدار ہو کر اپنے تاریخی و جغرافیائی تشخص کی بقا کے لیے مضبوط موقف اختیار کرنا ہوگا، ورنہ حالات انہیں تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کریں گے جہاں واپسی نا ممکن ہو جائے گی۔