بسم اللہ الرحمن الرحیم

مضامین

خوشبو اور لمس کی پہچان

کمیٹی چوک میٹرو اسٹیشن کے قریب ایک نابینا شخص اکثر مجھے مل جاتا ہے۔ وہ بڑی عاجزی کے ساتھ لوگوں سے درخواست کرتا کہ وہ اسے نیچے تک چھوڑ دیں۔ میں اسے ہر بار بڑے ادب سے اس کا ہاتھ تھام کر چنگ چی میں بٹھا دیتا، اور وہ دعائیں دیتا ہوا چلا جاتا۔ اس کی معصومیت اور شکرگزاری دل کو بہت سکون دیتی۔ وہ شخص ہمیشہ شکریہ ادا کرتا، جیسے اس نے مجھے کچھ بہت بڑا تحفہ دیا ہو۔

ایک دن جب میں صدر میٹرو اسٹیشن پر کھڑا تھا، وہی نابینا شخص مجھے نظر آیا، مگر اس بار اس کا ہاتھ کسی نوجوان لڑکے نے تھام رکھا تھا۔ لڑکے نے میرے قریب آ کر کہا، "انکل، اگر آپ اوپر جا رہے ہیں تو انہیں بھی لے جائیں۔” میں نے اس نابینا شخص کا ہاتھ تھاما، تو وہ اچانک بولا، "ارے! آپ یہاں؟” میں نے حیرانی سے کہا، "آپ تو نابینا ہیں، آپ نے مجھے کیسے پہچانا؟” وہ مسکراتے ہوئے بولا، "جناب، ہم نے جتنا بھی تجربہ کیا ہے، زندگی میں کبھی کسی نے کوئی نیکی کی ہو، وہ نہ صرف دل میں محفوظ رہتی ہے بلکہ اس شخص کا لمس اور خوشبو بھی ہمیشہ یاد رہتی ہے۔”

اس کے جواب نے مجھے چونکا دیا۔ ایک نابینا شخص جو اپنی آنکھوں سے دنیا نہیں دیکھ سکتا تھا، وہ نہ صرف مجھے پہچان رہا تھا بلکہ اس نے میرے چھوٹے سے عمل کی قدر کی تھی۔ جبکہ ہم جیسے لوگوں کو اکثر اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ جو کچھ ہم دوسروں کے لیے کرتے ہیں، وہ ہمیشہ دلوں میں محفوظ رہتا ہے۔

جب ہم اپنے زندگی کے پیچیدہ راستوں پر چلتے ہیں، ہم اکثر دوسروں کی مدد کرنے کے بعد یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی دعائیں، ان کے الفاظ، اور ان کا شکریہ ہمارے اندر ایک خوشبو کی طرح چھپ جاتے ہیں۔ جبکہ یہ نابینا شخص، جس کے پاس دیکھنے کی طاقت نہیں تھی، وہ وہ سب کچھ محسوس کرتا تھا جو ہم دیکھ کر بھی نہیں سمجھ پاتے۔

یہ کہانی صرف اس نابینا شخص کی نہیں، بلکہ اس بات کی ہے کہ ہم کس طرح چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو نظر انداز کرتے ہیں، اور احسان فراموشی کے شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک نابینا شخص نے ہمیں سکھایا کہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ باکردار ہوتے ہیں، وہ کبھی بھی نیکی کرنے والے کو نہیں بھولتے، چاہے وہ آنکھوں سے دیکھنے کے قابل نہ ہوں۔

اشتہار
Back to top button