بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کے بعد بلوچستان میں بھی زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد

پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کے بعد بلوچستان میں بھی زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد ہوگا، صوبائی اسمبلی سے ٹیکس آن لینڈ اینڈ ایگریکلچرل انکم کا ترمیمی مسودہ منظور ہو گیا۔بلوچستان اسمبلی نے ضلع قلات میں ایف سی اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں پشین لیویز اہلکاروں کی شہادت پر مذمتی قرارداد اور بلوچستان ٹیکس آن لینڈ اینڈ ایگریکلچرل انکم کا مسودہ قانون اتفاق رائے سے منظور کیا، جبکہ پیکا ایکٹ کی منظوری کے خلاف انیشنل پارٹی نے ایوان سے واک آوٹ کیا۔

واضح رہے کہ سندھ اسمبلی نے آج ہی زرعی انکم ٹیکس بل 2025 اتفاق رائے سے منظور کیا تھا، اس سے قبل 27 جنوری 2025 کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں زرعی انکم ٹیکس بل جبکہ 24 نومبر 2024 کو پنجاب اسمبلی میں زرعی انکم ٹیکس پنجاب بل 2024 کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی غزالہ گولہ کی زیر صدارت اجلاس میں سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے نیشنل پارٹی کے دیگر اراکین اسمبلی کے ہمراہ ایوان سے واک آوٹ کیا تاہم وزیر اعلیٰ بلوچستان کی درخواست پر اراکین اسمبلی پر مشتمل وفد نے انھیں مناکر واپس ایوان میں لے آئے۔

اجلاس کے دوران قائمہ کمیٹی کی جانب سے منظوری کے بعدصوبائی وزیر ریونیو میر عاصم کرد نے بلوچستان ٹیکس آن لینڈ اینڈ ایگریکلچرل انکم کا ترمیمی مسودہ قانون 2025 ایوان میں پیش کیا۔بل کے تحت زیادہ آمدن والے زمینداروں پر سپر ٹیکس بھی لاگو ہوگا، بل میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ سالانہ زرعی آمدنی 6 لاکھ روپےتک ہونے پر ٹیکس لاگو نہیں ہوگا، جبکہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ تک آمدن پر 15 فیصد ٹیکس نافذ ہوگا۔

اپوزیشن رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمٰن کی جانب سے مسودہ قانون پر احتجاج کیا گیا، انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے شرائط پر عمل کرتے ہوئے کسانوں پر اضافی ٹیکس عائد کیے جا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آج ایوان میں اپوزیشن اراکین کی تعداد انتہائی کم ہے لہٰذا اس مسودہ قانون کو مؤخر کیا جائے، تاہم ایوان میں بلوچستان ٹیکس آن لینڈ اینڈ ایگریکلچرل انکم کا مسودہ قانون اتفاق رائے سے منظور کرلیاگیا۔

اجلاس کے دوران صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے قلات میں دہشت گردی کے حوالے مشترکہ مذمتی قرار داد پیش کی، جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ضلع قلات میں ایف سی کے 18 ایف سی کے اہلکار شہید ہوئے جبکہ ڈیرہ اسمٰعیل خان کے علاقے درابن میں پشین لیویز کے 3 اہلکاروں سمیت 4 افراد شہید ہوئے۔

قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی نے پورے صوبے کو لیپٹ میں لیا ہوا ہے اور دہشت گردی میں 450 سویلین افراد شہید ہوئے، قرارداد پر حکومتی اراکین نے دہشت کردی کے واقعات کی مذمت کی اور دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی صورتحال سنگین صورت اختیار کر چکی ہے، 18 لاشیں بھی اٹھائیں اور گالیاں بھی سنیں، یہ نہیں ہوسکتا، ریاست کو کیک کی طرح دہشت گرد کاٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایوان میں تقریر کرنے والوں سے کہتا ہوں کہ آو آپ کو ان کیمرہ بریفنگ دیں گے، کیونکہ ہمارے لیے سیاست نہیں ریاست اہم ہے، اس ایوان کو اقدام اٹھاناہوگا کئی دہائیوں سے ہماری ریاست غیر مستحکم ہے، پاکستان حقیقت ہے اس کو تشدد سے نہیں توڑا جاسکتا۔

میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن کس سے مذاکرات کرنے چاہیے، کیا ان کے ساتھ کیا جائے، جو بندوق کی زبان بولتے۔اجلاس کے دوران امن وامان کے حوالے مشترکہ مذمتی قرارداد منظور کرلی گئی جبکہ ایوان میں بلوچستان کی ٹرانسپورٹ کو پنجاب کی حدود میں تنگ کرنے کے خلاف صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے قرارداد پیش کی۔

جس میں کہا گیا ہے کہ چیکنگ کے نام پر پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں مال بردار گاڑیوں کوگھنٹوں گھنٹوں کھڑا کرنے سے بلوچستان سے ملک کے دیگر علاقوں کو سپلائی ہونے والے فروٹ، سبزیاں اور کوئلہ وغیرہ منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے خراب ہو جاتے ہیں۔

مزید کہا گیا کہ اکثر ٹرانسپورٹرز نے کسٹم اور پنجاب پولیس کی بلا وجہ رکاوٹوں اور سختیوں کی وجہ سے اپنے ٹرکس گھروں میں کھڑے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ٹرک مالکان اور ڈرائیوروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ معاملے کے حل کے لیے صوبائی حکومت ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے تاکہ کمیٹی یہ معاملہ وفاقی اور پنجاب حکومت کے سامنے اتھائے تاکہ کوئی قابل قبول حل نکالا جاسکے۔ایوان نے پنجاب کی حدود میں بلوچستان کی ٹرانسپورٹ کو تنگ کرنے کے خلاف قرار داد منظور کرلیا، جس کے بعد صوبائی اسمبلی کا اجلاس جمعرات دن تین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

اشتہار
Back to top button