بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

وزیر اعلیٰ علی امین گنڈپور کی گمشدگی، خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس طلب

وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی مبینہ گمشدگی کے پیش نظر خیبرپختونخوا اسمبلی کا ہنگامی اجلاس آج دوپہر دو بجے طلب کرلیا گیا۔ اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے اجلاس کی طلبی کا مراسلہ جاری کردیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے اغوا ہونے کے معاملے پر بحث کی جائے گی۔اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں خیبر پختونخوا ہاؤس میں خواتین اور بچوں کے ساتھ بدتمیزی کے معاملے کو بھی زیر بحث لایا جائے گا۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں خیبرپختونخوا ہاؤس پہنچنے والے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا تاحال کچھ نہیں پتا چل سکا اور پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی قیادت نے حکومت پر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے اغوا کا الزام لگایا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ روز سے پارٹی رہنماؤں اور اہلخانہ کا علی امین گنڈاپور سے رابطہ نہیں ہورہا۔

پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے الزام لگایا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو اغوا اور گرفتار کر لیا گیا ہے۔دوسری جانب سرکاری ذرائع نےوزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی گرفتاری کی خبروں کی تردید کردی ہے۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے احتجاج کے پیش نظر دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے راستوں اور موبائل فون سروسز کی بندش کی وجہ سے جڑواں شہروں میں معمولات زندگی ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔

گزشتہ روز ہفتہ کے روز پی ٹی آئی کے مارچ کرنے والے ہزاروں کارکن وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں پولیس کی رکاوٹیں توڑ کر اسلام آباد میں داخل ہوئے تھے اور اس دوران دارالحکومت میں شدید بارش کے دوران پی ٹی آئی اور اسلام آباد انتظامیہ کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی تھیں پولیس نے سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا تھا۔علی امین گنڈا پور کی زیر قیادت چھ سے 8 ہزار کارکنوں پر مشتمل قافلہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے بعد ٹیکسلا کے راستے اسلام آباد میں داخل ہوا اور جناح ایونیو پر واقع چائنا چوک تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

چائنا چوک پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کچھ دیر کے لیے نمودار ہوئے تھے اور اس کے بعد پختونخوا ہاؤس روانہ ہو گئے جس کے بعد مظاہرین ایکسپریس چوک کی طرف بڑھ گئے تھے اور انہیں روکنے کے لیے پولیس نے ایک بار پھر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔

وفاقی حکومت نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کو دارالحکومت پر چڑھائی کرنے پر خبردار کیا تھا کہ انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔وزیر داخلہ محسن نقوی نے علی امین گنڈا پور کو پرتشدد واقعات کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی کارکنوں سے جھڑپوں میں 80 کے قریب پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے جھڑپوں کے بعد تقریباً 600 مظاہرین کو دارالحکومت سے حراست میں لے کر ان کے خلاف شہر کے مختلف تھانوں میں مقدمات درج کیے ہیں۔پولیس افسر نے دعویٰ کیا کہ ان مظاہرین میں 100 افغان شہری بھی شامل ہیں تاہم پولیس کے پاس مزید مظاہرین کو حراست میں لینے کے لیے جگہ کم پڑ رہی ہے۔

اس کے بعد مقامی عدالت نے شراب اور اسلحے کی برآمدگی سے متعلق کیس میں ’متعدد غیر حاضریوں‘ کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے اور پولیس کو انہیں 12 اکتوبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔عدالتی حکم کے بعد پولیس اور رینجرز کی نفری نے اسلام آباد میں واقع پختونخوا ہاؤس پہنچ کر اسے گھیرے میں لے لیا تھا۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی غیر تصدیق شدہ ویڈیوز میں پولیس کو پختونخوا ہاؤس میں داخل اور اس کے مرکزی دروازے کا کنٹرول سنبھالتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اشتہار
Back to top button