بسم اللہ الرحمن الرحیم

تعلیم

سرکاری یونیورسٹیوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے حوالہ سے قوانین کی پابندی کریں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

 عدالتی حکم کی کاپی اُن تمام متعلقہ وائس چانسلرز /ریکٹرز اوردیگر لوگ جنہوں نے حکم پر عمل نہیںکیا ان کو بھجوائی جائے،2ہفتے میں اپنا تحریری جواب جمع کروائیں، چیف جسٹس کا حکم،  عدالت کا تمام متعلقہ حکام کوآئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ قومی خزانے سے بھاری رقم سرکاری یونیورسٹیوں پر خرچ ہوتی ہے، سرکاری یونیورسٹیوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے حوالہ سے قوانین کی پابندی کریں۔ بدقسمی سے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بہت سی یونیورسٹیاں قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انچارج ذمہ داران کی ذاتی خواہشات پر چلائی جارہی ہیں۔ یہ خلاف ورزیاں تعلیم کوبری طرح متاثرکرنے کے ساتھ پاکستانی یونیورسٹیوں کی ساکھ،مقام اور ان کی جانب سے جاری کردہ ڈگریوں کو بھی نقصان پہنچانے کاباعث بنتی ہیں۔

چیف جسٹس نے حکم دیا ہے کہ عدالتی حکم کی کاپی اُن تمام متعلقہ وائس چانسلرز /ریکٹرز اوردیگر لوگ جنہوں نے حکم پر عمل نہیں کیا ان کو بھجوائی جائے اوروہ اپنے دستخط کے ساتھ2ہفتے میں اپنا تحریری جواب جمع کروائیں کہ کیوں یونیورسٹی کوچلانے کے حوالہ سے موجود قانون پر عمل نہیں کیا جارہا اورکیوں نہ اُن کے خلاف کاروائی کے لئے مناسب احکامات تجویز کئے جائیں یا اٹھائے جائیں۔

عدالت نے حکم دیا ہے کہ تمام متعلقہ حکام آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 3رکنی بینچ کی جانب سے سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز، ریکٹرز اوردیگر مقررہ مدت کی پوسٹوں پر تعیناتیوں کے حوالہ سے آل پبلک یونیورسٹیز بی پی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن (اپوبٹا)کی جانب سے دائر درخواست پر 11جولائی 2024کوہونے والی سماعت کاتحریری حکمنامہ جاری کردیا گیا۔9صفحات پر مشتمل حکمنامہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریرکیا گیا ہے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے 15مئی 2024کو مدعا علیحان کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ کار میں موجودتمام سرکاری یونیورسٹیوں کی تفصیلات فراہم کریں اور بتائیں کہ کتنی سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز اوردیگر مخصوص مدت کی پوسٹیں خالی ہیں یاان پر عارضی طور پر افراد تعینات ہیں۔

یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ یونیورسٹیوں میں مختلف اجلاس بلانے کے حوالہ سے قانون کیا کہتا ہے اورآیا کہ اس حوالہ سے قانون پر عمل کیا جارہا ہے کہ نہیں۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ 15مئی2024کے حکم میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر کسی یونیورسٹی میں وائس چانسلرز، پرووائس چانسلرز، ریکٹرز، صدور، نائب صدور، رجسٹرارز، فیکلٹیز اور ڈیپارٹمٹس کے ہیڈز، کنٹرولر امتحانات، ڈائریکٹر فنانس جن کا قابل نفاذ قوانین میں ذکر ہے جہاں کہیں بھی خالی ہیں انہیں جلد ازجلد قابل عمل مدت میں پُر کیا جائے اور یہ کام متعلقہ قوانین کے تحت کیا جائے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس نے وفاق کے ماتحت کام کرنے والی یونیورسٹیوں کی تفصیل بتائی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاق کے ماتحت کل 12یونیورسٹیاں کام کررہی ہیں۔ جبکہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل  بلوچستان محمد ایاز خان سواتی کی جانب سے جمع کروائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں 3یونیورسٹیوں میں عارضی وائس چانسلرز کام کررہے ہیں جبکہ 2یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے تحت کام کررہے ہیں۔

چیف جسٹس نے سیکرٹری، کالجز، ہائر اینڈ ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ، حکومت بلوچستان سے 14روز میں وضاحت طلب کی ہے کہ کیوں متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی کاسلسلہ جاری ہے اوروہ آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوکربتائیں کہ کیا ہائی کورٹ نے کیسز کافیصلہ کردیا ہے کہ نہیں اورآخری حکم کیا ہے۔

ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ میں کل 34یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے 19ریگولروائس چانسلرز کے بغیر کام کررہی ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ وائس چانسلرز کی تقرری کے حوالہ سے کام تقریبا مکمل ہے اور3ناموں پر مشتمل سمریاں صوبائی کابینہ کوبھجوائی گئی ہیں تاہم رپورٹ کے ساتھ کاپی نہیں لگائی گئی اورنہ ہی سلیکشن کے حوالہ سے مقررکردہ معیار کے حوالہ سے آگاہ کیا گیا ہے۔ عدالت نے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن، آرکائیوز اینڈ لائبریرزڈیپارٹمنٹ ، حکومت خیبرپختونخوا کو ہدایت کی ہے کہ وہ 14روز کے اندر جواب دیں کہ کیوں متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی کاسلسلہ جاری ہے اوروہ آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ ہر یونیورسٹی کے حوالہ سے درکار معلومات تحریری صورت میں فراہم کی جائیں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب وسیم ممتاز ملک کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ پجاب میں کام کرنے والی 34سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 25بغیر مستقل وائس چانسلرز کے کام کررہی ہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی جانب سے بتایا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے انتخابات کے باعث نگران حکومت کی جانب سے وائس چانسلرز کی تقرریوں پر پابندی لگائی گئی تھی تاہم موجودہ حکومت کی جانب سے سرچ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اورتعیناتیوں کا عمل 2ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ اگر عدالت حکم پر عمل ہو گیا ہے تو سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ، حکومت پنجاب جامع رپورٹ جمع کروائیں اوراگر عدالتی حکم پر عمل نہیں ہواتو2ہفتے کے اندر تحریری طور پر وضاحت کریں کہ کیوں قابل عمل قوانین پر عمل نہیں کیاجارہا اور وہ آئندہ سماعت پر خود حاضر ہوں۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ ڈاکٹر حسن اکبر کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ صوبہ میں 7یونیورسٹیاں بغیر ریگولر وائس چانسلر کام کررہی ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بعض یونیورسٹیوں کی جانب سے قانونی باڈیز کے مقررکردہ اجلاسوں کاانعقاد نہیں کیاجارہا۔ حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ ان یونیورسٹیوں میں مقررہ مدت کی متعدد پوزیشنز پر عارضی تعیناتیاں کی گئی ہیں جو کہ قانون کے مطابق نہیں۔ ان یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کمیشن، حکومت سندھ کو ہدایت کی جاتی ہے وہ نوتس موصول ہونے کے14روز کے اندرتحریری طور پر جواب دیں کہ کیوں متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی کاسلسلہ جاری ہے اور وہ خود آئندہ سماعت پر عدالت میں حاضر ہوں۔عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ ایچ ای سی وکیل محمد نذیر جواد کی جانب سے بتایاگیا کہ اکیڈمک اور نام اکیڈمک اسٹاف کی شرح 1کے مقابلہ میں ڈیڑھ ہونی چاہیئے تاہم تمام ہی یونیورسٹیاں اس شرح کی خلاف ورزی کررہی ہیں اور اکیڈمک اسٹاف کے مقابلہ میں نان اکڈمک اسٹاف کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ یونیورسٹیوں کی جانب سے مالی مشکلات کاسامنے کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

وفاق، صوبوں اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ بتائیں کہ آیا انہوں نے یونیورسٹیوں کو روکا ہے یا کوئی ایسی پابندی لگائی ہے کہ وہ نان اکیڈمک اسٹاف کی مزید تعیناتیاں نہ کریں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ سرکاری یونیورسٹیاں اپنے حوالہ سے قوانین پر عملدآمد کو یقینی بنائیں اور اگر متعلقہ افرادبغیر کسی وجہ کے قوانین پر عمل نہیں کررہے تو پھر وہ اس بات پر غور کریں کہ کیا وہ اپنی پوزیشینز پر برقراررہنے کے مستحق ہیں۔

حکم میں کہا گیا ہے کہ جن قوانین کے تحت یہ یونیورسٹیاں چل رہی ہیں ان میں درج مدت کے بعد سنڈیکیٹس، بورڈ آف گورنرزاور بورڈآف ٹرسٹیزکے اجلاس منعقد ہونے چاہیں۔ یونیورسٹیاں وائس چانسلرز، صدور، نائب صدور، رجسٹرارز، فیکلٹی اور ڈیپارٹمنٹس کے سربراہان، کنٹرولر امتحانات اور ڈائریکٹر فنانس کی آسامیاں خالی نہ چھوڑیں کیونکہ اگر وہ انہیں خالی چھوڑتی ہیں تووہ متعلقہ قابل عمل قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہیں۔ اگراس طرح معاملات کوچلایا جاتا ہے اور قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تواس عمل کوجاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اشتہار
Back to top button