اپنی قسمت خود سنواریے
تحریر محمد عزیر گل
ہمارے معاشرے میں اکثریت ایسے طبقے کی ہے ، جو دوسروں کی کامیابی اور ترقی کو دیکھ کر حسد یا حسرت کرتے ہیں ، یہ کامیابی و ترقی ایک ملازم پیشہ فرد کی ہو سکتی ہے اور ایک بزنس مین کے لیے بھی ، حاسد اس سے من ہی من میں جلتا رہتا ہے اور اس ترقی کی وجہ رشوت ، سفارش یا چاپلوسی کرار دے کر تسلی کا سامان پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور حسرت کرنے والا صرف اس خواہش اور افسوس کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ کاش میں بھی اس طرح سے ترقی کرتا ، مجھے بھی ایسی کامیابی مل جائے ، اس کی نظر اس کی ترقی کی وجہ سے عزت ، مراعات اور اختیار و تعلقات کے دائرہ کار بڑھنے پر ہوتی ہے ، وہ اس کامیابی و ترقی کو قسمت کے ساتھ جوڑتا ہے ، اس شخص کی قسمت اچھی تھی ، ورنہ میں بھی اس کے ساتھ ہی کام کرتا تھا ، میرے حصے میں ایسی کوئی کامیابی کیوں نہیں آئی ، اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں ، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی قسمت خود بنائی جاتی ہے ، چند چیزوں کو اپنانے سے ہمارے مقدر میں بھی اچھی قسمت آسکتی ہے ۔
محنت
کسی بھی کامیاب شخص کی زندگی کو دیکھ لیجیے ، اس کے پیچھے انتہک محنت ہوگی ، وہ شخص اپنے کام میں مکمل امانت داری سے محنت کرتا ہوگا اور قانون فطرت ہے کہ اللہ رب العزت کسی بھی شخص کی محنت کو ضائع نہیں کرتا ، اگرچہ وہ محنت کرنے والا شخص مسلمان ہو یا دنیا کا بد ترین کافر ، کافر اگر اسلام کو نقصان اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے محنت کرئے گا تو قانون قدرت اس کو کامیاب کرے گا اور مسلمان حق پر ہونے کے باوجود بھی صرف محنت نہ کرنے کی وجہ سے نقصان اٹھائے گا ، اس لیے کسی بھی کام میں محنت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑٰیں ۔
امانت داری
جس شخص کے اندر امانت داری کی صفت سے متصف ہوتا ہے ، وہ لوگوں کی نظر میں باوقار ہوتا ہے ، لوگ اس کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ، اس کی بات کو اہمیت دیتے ہیں ، بحیثیت ایک مسلمان کے امانت داری ہمارے ایمان کا حصہ ہے ، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اسلام سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو امین کے لقب سے پکارتے تھے ، حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تجارتی قافلہ لے جانے کی پیش کش تھی ، آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی امانت کے تذکرے سننے کے بعد کی تھی ، نبوت کے اعلان کے بعد کفار نے باوجود آپ کی نبوت کے انکار کرنے کے اپنی امانتیں آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے پاس رکھتے تھے ، اسی طرح قرآن و حدیث میں کئی مقام پر واضح حکم ملتا ہے کہ اپنے معاملات میں امانت داری اختیار کر و ، اس لیے اپنے کام و معاملات میں مکمل امانت داری اختیار کریں ، جو آپ کی قسمت میں ترقی کی راہوں کو کھولنے میں مدد گار ہوگی ۔
مقصد
اپنی زندگی کو با مقصد بنائیں ، جب تک کوئی مقصد نہیں ہوگا ، اس وقت تک انسان کچھ بڑا نہیں کرسکتا ، مقصد یہ نہیں کہ مجھے فلاں جاب حاصل کرنی ہے یا فلاں عہدے کو حاصل کرنا ہے ، اپنے کاروبار کو فلاں مقام تک لے جانا ہے ، اتنے پیشے کمانے ہیں ، فلاں سے مقابلہ کر کے اس کو شکست دینی ہے ، بلکہ مقصدیہ ہے کہ آپ نے اس چیز کو حاصل کرنے کے بعد کیا کرنا ہے ، اس کو کرنے کی وجہ کیا ہوگی ، جس دن اس مقصد کو طے کرلیا اور اس پر مکمل امانت داری سے محنت شروع کردی ، اس دن قسمت آپ پر مہربان ہو جائے گی ، کامیابی اور ترقی آپ کے مقدر ہوگی۔