بسم اللہ الرحمن الرحیم

تجارت

وزیراعظم نے بتایا تھا کہ ہم اپنی چائے بھی قرض کی رقم سے پی رہے ہیں، وزیر خزانہ

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پہلے ہم دوست ممالک سے قرض لے لیتے تھے لیکن اب دوست ممالک نے قرض دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اب امداد دینے کے بجائے سرمایہ کاری کریں گے۔وزیر خزانہ نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سال 2024 کی پہلی سہ ماہی میں حالات 2023 کی پہلی سہ ماہی سے بہتر ہیں، جی ڈی پی بہتر ہے، میکرو اکنامک استحکام ہے اور زرمبادلہ کی شرح بہتر ہے، تو یہ میکرو اکنامک استحکام کو مستقل بنیادوں پر بہتر بنانا ہے جس کے بعد ہم اس کو شرح نمو کی طرف لے کر جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے لیکن اب ہمیں عملدرآمد اور اس کو صحیح طریقے سے چلانے کی جانب جانا ہے، ہمیں ریونیو میں جو پیسے ضائع ہو رہے ہیں ان کو کم کرنا ہے، کم ٹیکس کی شرح کو تو بہتر بنانا ہی ہے لیکن موجودہ ٹیکس وصولی کو بہتر بنانے کے لیے ایف بی آر کو جدید خطوط پر استور کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شفافیت لانی ہے اور ہم نے اس پر کام شروع کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کو اخراجات کو کم کرنا ہے، وزیراعظم نے گزشتہ دنوں بتایا تھا کہ ہم اپنی چائے بھی قرض کی رقم سے پی رہے ہیں، پی ایس ڈی پی میں ہمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی طرف جانا ہے اور اس کی بدولت ہم ایک انفرااسٹرکچر بنا سکیں گے اور اس پر حکومت سندھ اس پر بہت اچھا کام کیا ہے اور ہم اس کو وفاق اور دیگر صوبوں میں بھی اس پر کامیابی سے عمل کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیے  کارپٹ ایسوسی ایشن کا افغانستان کیلئے ملٹی موڈل ایئر لینڈ کوریڈور کا نوٹیفکیشن کا خیر مقدم

محمد اورنگزیب نے کہا کہ پہلے ہم دوست ممالک سے قرض لے لیتے تھے یا اسے رول اوور کرا لیتے ہیں لیکن اب دوست ممالک نے بھی کہا ہے کہ وہ ہماری معاونت امداد کے ذریعے نہیں بلکہ سرمایہ کاری کے ذریعے کریں گے اور اس سلسلے میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا پلیٹ فارم بہت اہم کردار ادا کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی پیک منصوبے میں سلسلہ منقطع ہو گیا تھا، پہلے مرحلے میں ہم نے انفراسٹرکچر پر کام کیا تھا اور دوسرے مرحلے میں خصوصی اکنامک زون بنانے تھے لیکن ایسا نہیں ہو سکا، بنگلہ دیش میں اس وقت 96 اسپیشل اکنامک زون ہیں، وزیر اعظم کا وژن ہے کہ ہمیں سی پیک کے دوسرے مرحلے پر تیزی سے عملہ جامہ پہنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملکی برآمدات میں اضافے کے لیے ہمیں توانائی کے مسئلے کو حل کرنا ہو گا لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے ہمیں تین ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کی توقع ہے جبکہ گندم کے شعبے میں بھی اگر ہم فی ایکڑ 36من سے 40 من پر لے جائیں تو یہ ہمارے لیے کافی ہو گی اور اگر ہم اس میں مزید اضافہ کرتے ہیں تو اس کی برآمدات کر سکیں گے اور ان شعبوں کی بدولت ہم زرمبادلہ کے ذخائر لا سکیں گے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ نجکاری کے ذریعے ہم استحکام لا سکتے ہیں کیونکہ پھر ہم ان اداروں کے ذریعے ہونے والے خسارے سے بچ سکتے ہیں، پی آئی اے کی نجکاری کا کام علیم خان نے سنبھالا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم درست سمت میں گامزن ہیں جبکہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو بھی صوبوں کے بجائے نجی شعبے کو دیں گے۔

مزید پڑھیے  سوئی سدرن کے بعد سوئی نادرن کا بھی سی این جی سیکٹر کی بندش کا فیصلہ
Back to top button