بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

ضمنی مالیاتی بل 2021 (منی بجٹ) کثرت رائے سے منظور

قومی اسمبلی نے ضمنی مالیاتی بل 2021 (منی بجٹ) کثرت رائے سے منظور کرلیا اور اپوزیشن کی پیش کردہ تمام ترامیم مسترد کردی گئیں۔

اس کے بل کے تحت  500 روپے سے زیادہ مالیت کے فارمولا دودھ پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) لگے گا۔

اس کے علاوہ  درآمدی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھا دیا گیا، درآمدی گاڑیوں پر تجویز کردہ 5 فیصد کے بجائے 12.5 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔

مقامی طور پر تیار کردہ 1300 سی سی کی گاڑی پر ڈھائی فیصد ڈیوٹی عائد  ہوگی، 1301 سے 2000 سی سی کی مقامی گاڑی پر 10 کے بجائے 5 فیصد ڈیوٹی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ 2001 سی سی سے اوپر کی مقامی گاڑی پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد  ہوگی۔

 اس کے علاوہ لال مرچ اور آئیوڈین ملے نمک پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی نے محصولات اور ڈیوٹیز سے متعلق بعض قوانین میں ترمیم کرنے کے مالی (ضمنی) بل 2021ء کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔

اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ تمام ترامیم مسترد کردی گئیں جبکہ وزیر خزانہ شوکت ترین کی طرف سے پیش کردہ ترامیم بل میں منظوری کے بعد شامل کرلی گئیں۔

حکومت کی جانب سے منظور کی جانے والی ترامیم کے مطابق کھانے پینے کی اشیاء، بیکری کی اشیاء، لیپ ٹاپ، سولر  پینلز اور بعض دیگر اشیاء پر ٹیکس چھوٹ کو برقرار رکھا گیا ہے۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر  برائے اقتصادی امور  عمر ایوب نے ضمنی مالیاتی بل 2021ء قومی اسمبلی میں پیش کردہ صورت میں زیر غور لانے کی تحریک پیش کی۔

اس پر مسلم لیگ ن کے رکن احسن اقبال نے کہا کہ سینیٹ سفارشات پر بحث کرائی جائے۔ اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ اس پر گزشتہ روز بحث ہوگئی ہے۔

پیپلز پارٹی کے رکن سید نوید قمر نے کہا کہ اس پر بحث ہونی چاہیے لیکن اسپیکر نے کہا کہ مَنی بل پر کل 26 ممبران نے بحث میں حصہ لیا۔ حکومت کی جانب سے 2 گھنٹے 37 منٹ جبکہ اپوزیشن نے 5 گھنٹے 15 منٹ تک بات کی، ٹوٹل 7 گھنٹے 52 منٹ اس پر بات کی گئی۔

پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے مَنی بل پر اپنی ترمیم پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کو عوام میں رائے کیلئے پیش کیا جائے تاکہ عوام اپنی رائے دیں لیکن وزیر خزانہ شوکت ترین نے اس کی مخالفت کی۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ معاشی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ یہ صرف تین سال سے نہیں بلکہ 30 سالوں سے ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی۔ 

بعد ازاں اپوزیشن کی جانب سے 11 جنوری 2022ء کو ضمنی مالیاتی بل 2021ء زیر غور لانے کی تحریک کی دوسری خواندگی کے موقع پر ترامیم پیش کی گئیں۔ اسپیکر نے اپوزیشن کی ترامیم پر زبانی رائے شماری لی تو اپوزیشن کی جانب سے اسے چیلنج کیا گیا۔ اسپیکر نے حکومتی اور اپوزیشن ارکان کو باری باری اپنی نشستوں پر کھڑا کرکے گنتی کرائی تو ترمیم کے حق میں اپوزیشن کی جانب سے 150 ارکان نے اپنی رائے کا اظہار کیا جبکہ حکومت کی جانب سے 168 اراکین نے اپوزیشن کی ترامیم کی مخالفت کی جس کے بعد وفاقی وزیر خزانہ شوکت فیاض احمد ترین کی جانب سے پیش کردہ ترامیم کثرت رائے سے منظور کرلی گئیں۔

 بل کی شق وار منظوری کے دوران ایم کیو ایم کی طرف سے کشور زہرہ نے ترامیم پیش کیں جس پر وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ہم نے ایم کیو ایم کی ترامیم کا ازالہ کردیا ہے، توقع ہے کہ اس کے بعد ایم کیو ایم کی طرف سے ترامیم واپس لی جائیں گی۔

کشور زہرہ نے کہا کہ منی بجٹ کی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے ترامیم پیش کی تھیں، وزیراعظم عمران خان اور وزیر خزانہ شوکت ترین نے ہماری ترامیم پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے جس پر ہم ان کے شکرگزار ہیں۔

وزیر خزانہ شوکت ترین کی یقین دہانی پر ایم کیو ایم کی طرف سے کشور زہرہ نے اپنی ترامیم واپس لے لیں۔

اس کے بعد اسپیکر نے ایوان سے بل کی شق وار منظوری شروع کی۔ اپوزیشن کی جانب سے ضمنی مالیاتی بل 2021ء کی شق 2 پر تین ترامیم جمع کرائی گئیں جو شاہد خاقان عباسی، محسن داوڑ اور سید نوید قمر نے ایوان میں پیش کیں۔

اپوزیشن ارکان نے اپنی ترامیم کے حق میں کہا کہ ضمنی مالیاتی بل 2021ء کی منظوری سے ملک کا ہر طبقہ متاثر ہوگا اور اس کے عوام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

شاہد خاقان عباسی نے اپنی ترامیم کے حق میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ آگاہ کریں کہ منی بجٹ پیش کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ ماضی میں کبھی بھی منی بجٹ میں اتنے بڑے ٹیکس نہیں لائے گئے۔

محسن داوڑ نے کہا کہ ہماری ترمیم سابق فاٹا سے کسٹم ہاؤسز کو ضم شدہ اضلاع سے باہر رکھے جانے کے حوالے سے ہیں۔

شوکت ترین نے اس پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ بطور وزیر خزانہ جب آئی ایم ایف سے بات چیت کا آغاز ہوا تو انہوں نے اِن پٹ اور آؤٹ پُٹ کو برابر رکھنے کی بات کی، یہ جو ٹیکسز کا واویلا کیا جارہا ہے دراصل یہ ڈاکومینٹیشن کے خلاف ہیں کیونکہ جب بھی معیشت کو دستاویزی بنانے کی بات کی جاتی ہے تو اسی طرح شور اٹھتا ہے۔ دستاویزی معیشت سے سب بھاگتے ہیں، اس سے ان کی اصل آمدن کا اندازہ ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ٹیکسوں کی گیم نہیں بلکہ یہ جو واویلے کا طوفان ہے اس کا مقصد معیشت کو دستاویزی بنانے سے روکنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منی بجٹ کے ذریعے لگائے جانے والے 343 ارب روپے میں سے 280 ارب ریفنڈ ہو جائیں گے جبکہ صرف 71 ارب روپے کا ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈبل روٹی، دودھ، لیپ ٹاپ، سولر پینلز سمیت دیگر ضروری اشیاء کو حاصل ٹیکس چھوٹ برقرار رکھی جارہی ہے۔

شوکت ترین نے کہا کہ اپوزیشن کو بھی علم ہے کہ جب تک 18 سے 20 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی نہیں ہوگی ہم 6 سے لے کر 8 فیصد کی شرح نمو حاصل نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد اسپیکر نے اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ ترامیم ایوان میں پیش کیں جنہیں کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا جبکہ انہوں نے بل کی شق 2 ایوان میں منظوری کیلئے پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دے دی۔

ضمنی مالیاتی بل کی تیسری شق پر وزیر خزانہ کی جانب سے ڈبل روٹی، نان، سویاں، چپاتی اور بیکری آئٹمز سمیت کھانے پینے کی اشیاء پر ٹیکس چھوٹ برقرار رکھنے سمیت 8 ترامیم کی بھی ایوان نے منظوری دی۔

اس موقع پر شوکت ترین نے کہا کہ 71 ارب روپے کے ٹیکس پر جذباتی نہیں ہونا چاہیے، یہ ہم ملک کیلئے کر رہے ہیں۔ سیلز ٹیکس تین کھرب ہے، ہم اس کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے اپوزیشن کی ترامیم ایوان میں پیش کیں جنہیں کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔

ایوان نے پانچویں شق میں وزیر خزانہ کی ترامیم کی منظوری دی جبکہ اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ ترامیم کو مسترد کردیا گیا۔ ضمنی مالیاتی بل کی چھٹی شق میں آئینی ترمیم پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ ہمیں غریبوں کا احساس نہیں ہے۔ احساس راشن پروگرام کے تحت 120 ارب روپے دیے جارہے ہیں، پنجاب میں صحت کارڈ کی مد میں 400 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت 1.4 ٹریلین کے قرضے فراہم کریں گے۔  بعد ازاں ایوان نے وزیر خزانہ شوکت ترین کی طرف سے پیش کردہ ترامیم منظور کرلیں جبکہ اپوزیشن کی ترامیم کو کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔

 پھر وزیر خزانہ شوکت ترین نے تحریک پیش کی کہ ضمنی مالیاتی بل 2021ء منظور کیا جائے جس پر قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے بل کی منظوری دے دی۔

Back to top button