بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

باہمی احترام پر مبنی اسٹریٹیجک سفارتکاری کے ذریعے پاک-افغان تعلقات از سرِ نو استوار کرنے پرزور 

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں پائی جانے والی پیچیدگیاں اور طالبان حکومت کی اندرونی ساختی خامیاں، جن میں واضح حکومتی ڈھانچے کی عدم موجودگی، سیاسی انتشار، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف مؤثر کارروائی کا فقدان، بھارت کی جانب جھکاؤ، اور تقسیم پیدا کرنے والے میڈیا بیانیے شامل ہیں، دونوں ممالک کو اپنے تعلقات کی حقیقی صلاحیت بروئے کار لانے سے روک رہی ہیں اور حالیہ سرحدی کشیدگی کا باعث بنی ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مستقل سیاسی عزم، قابلِ تصدیق رابطہ جاتی میکنزم کے قیام، اور ردِعمل پر مبنی سفارتکاری کے بجائے ایک متوازن، باہمی احترام پر مبنی اور مستقبل بین اسٹریٹجک سفارتکاری اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس عمل کی بنیاد مؤثر رابطے، تعاون، ایک دوسرے کے قومی خدشات کے حوالے سے حساسیت، اور خطے کے مشترکہ مفادات پر ہونی چاہیے۔

یہ خیالات انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد کے زیرِاہتمام منعقدہ گول میز مذاکرے بعنوان "پاکستان-افغانستان تعلقات: ایک کثیرالجہتی جائزہ” میں اظہارِ خیال کے دوران پیش کیے گئے، جس میں سفارت کاروں، ماہرینِ تعلیم، دفاعی تجزیہ کاروں اور صحافیوں نے شرکت کی۔

مقررین میں خالد رحمان، چیئرمین آئی پی ایس؛ سفیر (ر) سید ابرار حسین، وائس چیئرمین آئی پی ایس؛ پروفیسر ڈاکٹر شبانہ فیاض، سربراہِ شعبہ دفاعی و اسٹریٹجک اسٹڈیز، قائداعظم یونیورسٹی؛ میجر جنرل (ر) انعام الحق، بین الاقوامی امور کے ماہر؛ بریگیڈیئر (ر) سید نذیر، دفاعی تجزیہ کار؛ طاہر خان، صحافی؛ ڈاکٹر اشرف علی، سکیورٹی و سیاسی تجزیہ کار؛ ڈاکٹر عبداللہ خان، منیجنگ ڈائریکٹر،پِکس ؛ سلمان جاوید، ڈائریکٹر جنرل ساوتھ ایشیا ٹائمز؛ ڈاکٹر خُرم اقبال، ایسوسی ایٹ پروفیسر، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انٹیلیجنس اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز، قائداعظم یونیورسٹی؛ اور ڈاکٹر فیصل جاوید، سربراہِ شعبہ بین الاقوامی تعلقات، فیڈرل اردو یونیورسٹی اسلام آباد شامل تھے۔

شرکاء نے مشاہدہ کیا کہ اگست 2021 میں طالبان کے کابل پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے گروہ ایک مذہبی تحریک سے قومی نوعیت کی قوت میں تبدیل ہونے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک اپنی قانونی حیثیت منوا سکے، حالانکہ عوام کے ساتھ ایک واضح خلیج موجود ہے۔ اس دوران پاکستان نے رابطے کے لیے "اسٹریٹجک صبر” کا مظاہرہ کیا ہے۔ بحث میں زور دیا گیا کہ دونوں ممالک کو اپنے بیانیے ازسرِنو ترتیب دینے، سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور ثقافتی سطح پر ادارہ جاتی روابط کو مضبوط بنانے، اور باہمی احترام و خطے کے مشترکہ استحکام پر مبنی ایک پائیدار فریم ورک تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

مقررین نے کہا کہ پاکستان-افغانستان تعلقات کی ساخت پانچ بنیادی ستونوں پر قائم ہے: سیاسی، دفاعی، اقتصادی، عوامی روابط اور ثقافت۔ دونوں ممالک نے آخری تین شعبوں میں کچھ پیش رفت ضرور کی ہے، لیکن وہ ان کامیابیوں کے اثرات کو سیاسی اور دفاعی شعبوں میں دہرانے میں دہائیوں سے ناکام رہے ہیں۔ ان مسائل کی جڑیں ساختی کمزوریوں میں پیوست ہیں، جن میں افغانستان میں واضح حکومتی ڈھانچے کی عدم موجودگی نمایاں ہے، جو اسلام آباد اور کابل کے مابین حالیہ استنبول مذاکرات کے دوران واضح ہوئی۔ اس سے افغان حکام کی جانب سے پاکستان سے متعلق اتفاقِ رائے پر مبنی پالیسی تشکیل دینے  میں ناکامی ہوئی، جس نے تعلقات کو مزید تناؤ کا شکار کیا۔

ایک اور بڑی رکاوٹ قومی مفادات سے متعلق حساس معاملات کا حد سے زیادہ سیاسی بن جانا ہے، جو منفی جذبات کو ہوا دیتا اور باہمی اعتماد کے فقدان کو گہرا کرتا ہے۔ اس کے باوجود، شرکاء نے امید ظاہر کی کہ پاکستان اور افغانستان اب بھی باہمی احترام، مشترکہ مفادات اور علاقائی سلامتی کے اصولوں پر مبنی ایک قابلِ عمل تعلقات کا خاکہ تیار کر سکتے ہیں۔ تاہم، انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو مستقبل کی سفارتی حکمتِ عملی میں افغانستان کی سرزمین سے ابھرنے والے غیر روایتی خطرات،  مثلاً بھارت کے حمایت یافتہ گروہ یا ممکنہ آبی تنازعات ،کے حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ ایک ایسا رابطہ جاتی میکنزم تشکیل دینا چاہیے جس میں اسلام آباد کے خدشات کے ازالے کے لیے ٹھوس اور قابلِ تصدیق ضمانتیں شامل ہوں۔

مقررین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تجارت اور سیاست کو علیحدہ معاملات کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ علاقائی سطح پر پاکستان کو چین اور روس جیسے ممالک کے لیے اقتصادی و سلامتی سے متعلق مفادات قائم کرنے چاہییں، جبکہ افغان طالبان کی عدمِ شناخت کے مؤقف کو تقویت دینی چاہیے کیونکہ وہ ٹی ٹی پی اور دیگر عسکری گروہوں کو پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں سے روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس دوران، دونوں ممالک کے میڈیا کو چاہیے کہ وہ باہمی اعتماد کی فضا قائم کرنے والے اقدامات کو اجاگر کریں اور تعاون پر مبنی بیانیے کو فروغ دیں۔

اشتہار
Back to top button