بسم اللہ الرحمن الرحیم

کھیل

ویٹ لفٹنگ اسکینڈل: نوجوان پاکستانی ایتھلیٹس کے خواب چکنا چور

تحریر: شاہد الحق

پاکستان کے کھیلوں کے حلقے ایک بار پھر شدید بحران کا شکار ہیں جہاں بدعنوانی، اندرونی سیاست اور ادارہ جاتی خیانت نے دو ہونہار نوجوان ویٹ لفٹرز فرقان احمد اور حیدر شکیل کو تیسرے ایشین یوتھ گیمز میں شرکت سے محروم کر دیا ہے۔ دونوں کھلاڑیوں کو بحرین میں ہونے والے اس بین الاقوامی ایونٹ میں پاکستان کی نمائندگی کا بھرپور امکان تھا، لیکن آخری لمحات میں ان کے نام خارج کر دیے گئے۔

سرکاری مؤقف کے مطابق کھلاڑیوں کے "ٹھکانے کی معلومات” آخری تاریخ سے قبل جمع نہیں کرائی گئیں، جسے انتظامی کوتاہی قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم ذرائع اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی، جس کے پیچھے معطل شدہ پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کے وہ عناصر کارفرما ہیں جو پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن (POA) میں اپنے تعلقات استعمال کر کے فیصلے پر اثر انداز ہوئے۔

یہ بھی یاد رہے کہ ہائی کورٹ کے حکم پر پاکستان اسپورٹس بورڈ میں ایک عبوری کمیٹی قائم کی گئی تھی تاکہ بدعنوانی، ڈوپنگ اسکینڈلز اور بدانتظامی جیسے مسائل پر قابو پایا جا سکے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ POA نے نہ صرف شفافیت کی مخالفت کی بلکہ معطل شدہ فیڈریشن کی پشت پناہی جاری رکھی، جس سے نظام میں اصلاحات کے بجائے مزید بگاڑ پیدا ہوا۔

ذرائع کے مطابق معطل فیڈریشن نے ایسے کھلاڑیوں کو بھیجنے کی کوشش کی جن کی کارکردگی غیر معیاری تھی، جبکہ فرقان احمد جیسے حقیقی ٹیلنٹ کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا۔ فرقان نے حالیہ دنوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ان کے کوچ کے مطابق وہ 71 کلوگرام کیٹیگری میں موجودہ ایشیائی گولڈ میڈلسٹ سے دو سے تین کلوگرام زیادہ وزن اٹھا رہے تھے، جس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس کم از کم ایک یا دو گولڈ میڈلز جیتنے کا قوی امکان تھا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں کھیلوں کی سیاست نے ٹیلنٹ کا گلا گھونٹا ہو۔ ماضی میں اولمپک تمغہ جیتنے کی امید نوح دستگیر بٹ اور جوڈوکا شاہ حسین بھی اسی طرح کے سیاسی اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ان مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے کھیلوں کا انتظامی ڈھانچہ اصلاحات کے بجائے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہے۔

کوچز، سابق ایتھلیٹس اور کھیلوں کے ماہرین نے اس واقعے پر شدید احتجاج کیا ہے اور حکومت، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن، پاکستان اسپورٹس بورڈ اور وزارت کھیل سے مطالبہ کیا ہے کہ اس اسکینڈل کی فوری اور شفاف تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا فرقان احمد اور حیدر شکیل کی اپیل ایشین یوتھ گیمز کے منتظمین کو بھیجی گئی تھی یا نہیں؟ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ ان کھلاڑیوں کو جان بوجھ کر ایونٹ سے روکا گیا تو یہ پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ کا ایک انتہائی شرمناک باب تصور کیا جائے گا۔

پاکستان کے کھیلوں کا مستقبل صرف میدان کی کارکردگی پر نہیں بلکہ شفافیت، میرٹ اور ایماندارانہ فیصلوں پر منحصر ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ذاتی مفادات کی سیاست کا خاتمہ کیا جائے اور نوجوان کھلاڑیوں کے خوابوں کو تحفظ فراہم کیا جائے، تاکہ پاکستان عالمی سطح پر اپنے مقام کو بحال کر سکے۔

اشتہار
Back to top button