بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

پاکستان کا سلامتی کونسل میں پائیدار امن کے لیے عالمی اقدامات پر زور

پاکستان نے کہا ہے کہ ترقی، پائیدار امن اور انسانی حقوق ایک دوسرے سے گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں اور غربت، محرومی، عدم مساوات اور بنیادی حقوق کی عدم فراہمی صرف ترقیاتی مسائل نہیں بلکہ تنازعات کی گہری جڑی ہوئی ساختی(structural) وجوہات ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کھلے مباحثے بعنوان "غربت، پسماندگی اور تنازع: بین الاقوامی امن و سلامتی پر اثرات” کے دوران پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے کہا کہ جب تک ان بنیادی محرکات کا ازالہ نہیں کیا جاتا، امن کی کوششیں نامکمل، غیر مستحکم اور عارضی رہیں گی۔انہوں نے کہا کہ آج دنیا بڑھتی ہوئی عدم تحفظ، گہری ہوتی ہوئی عدم مساوات اور پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کے حصول میں رکاوٹوں کا سامنا کر رہی ہے۔

انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ ان چیلنجز کا بوجھ عالمی جنوب پر غیر متناسب طور پر پڑ رہا ہے، اور بڑھتا ہوا قرض، موسمیاتی دبا، بھوک اور محرومی دنیا کے کئی حصوں میں عدم استحکام کو ہوا دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ سلامتی کونسل طویل عرصے سے امن اور ترقی کے باہمی تعلق کو تسلیم کرتی آئی ہے، تاہم ضروری ہے کہ یہ فہم اس کے کام میں مزید مثر انداز میں شامل کی جائے۔

انہوں نے درج ذیل اہم نکات پیش کیے:* تنازعات کی بنیادی وجوہات جیسے غیر ملکی قبضہ، امتیازی سلوک، اور حق خودارادیت کی نفی کا حل بین الاقوامی قانون کے مستقل اور اصولی اطلاق کے ذریعے کیا جائے۔* تنازع کی روک تھام کے لیے سفارت کاری اور فوجی حل سے ہٹ کر جامع نظامی طریقہ کار اپنایا جائے۔* امن قائم رکھنے کی کوششوں میں ترقیاتی عوامل کو شامل کیا جائے اور ECOSOC، پیس بلڈنگ کمیشن، اور اقوام متحدہ کی ترقیاتی ایجنسیوں کے ساتھ قریبی تعاون کیا جائے۔

جوابی حکمت عملیاں مقامی حالات کے مطابق ترتیب دی جائیں، اور قومی حکومتوں کی غربت و پسماندگی کے خلاف کوششوں کی حمایت کی جائے۔* علاقائی تنظیموں جیسے افریقی یونین، یورپی یونین، اسلامی تعاون تنظیم، اور آسیان کے ساتھ ادارہ جاتی شراکت داری کو فروغ دیا جائے تاکہ موثرطور پر تنازعات کا حل ممکن ہو۔

پاکستانی سفیر نے کہا کہ ہم دیرپا امن کی بات نہیں کر سکتے جب تک ترقی کو نقصان پہنچانے والے ساختی حالات کا ازالہ نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو غیر منصفانہ عالمی معاشی ڈھانچوں نے پیچھے رکھا ہوا ہے، جو انہیں ناقابل برداشت قرض، بھوک، اور بگڑتے ہوئے موسمیاتی جھٹکوں کا سامنا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ان کے پاس وسائل اور دولت موجود ہیں، ترقی پذیر ممالک اکثر ان وسائل کی لوٹ مار کا نشانہ بنتے ہیں، جس سے ترقی یافتہ دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے۔انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا: "بہت سے ممالک غیر منصفانہ اور غیر مساوی عالمی نظاموں میں پھنسے ہوئے ہیں جو غربت اور پسماندگی کو برقرار رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کو پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کے حصول کے لیے سالانہ 4.2 ٹریلین ڈالر درکار ہیں، اور یہ ہدف قابل حصول ہے اگر سیاسی عزم ہو۔

سفیر عاصم نے کہا کہ ہمیں غربت کو تنازع کے بیج بونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پائیدار امن کی تعمیر کا مطلب ایسی معاشروں کی تشکیل ہے جہاں ہر فرد کو عزت کے ساتھ جینے، اور خوف و محرومی سے آزاد ہونے کا موقع میسر ہو۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جغرافیائی سیاسی تقسیم کو ایک طرف رکھ کر، ہمیں اجتماعی وسائل کو یکجا کرنا ہوگا تاکہ اس بگڑتے رجحان کو روکا جا سکے اور پائیدار امن و ترقی کی راہ پر گامزن ہوا جا سکے۔

اشتہار
Back to top button