بسم اللہ الرحمن الرحیم

کھیل

نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا میرا مقصد ہے، عاقب جاوید۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس سابق ٹیسٹ کرکٹر عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ ان کا سب سے بڑا مقصد اور ٹارگیٹ نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو اس مقام پر لانا ہے جو موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو جسے دنیا ایک بہترین سسٹم کے طور پر تسلیم کرے۔ ہم دوسروں کی نقل نہ کریں بلکہ لوگ ہماری تقلید کریں۔

عاقب جاوید نے پی سی بی پوڈکاسٹ میں وہاب ریاض سے گفتگو کرتے ہوئے مختصر مدت اور طویل مدت کے منصوبوں پر تففصیل سے روشنی ڈالی ہے۔عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ جب آپ کوچ بنتے ہیں تو پھر آپ کو کھلاڑیوں کو عزت دینی ہوتی ہے یہ نہیں کہ آپ کسی کھلاڑی سے یہ توقع کریں کہ وہ آپ جیسا ہی کرے۔

عاقب جاوید کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی کرکٹ کی ترقی اور کامیابی میں نیشنل اکیڈمی کا کردار کلیدی ہوتا ہے اور جب یہاں یہ اکیڈمی بند کردی گئی تھی تو وہ غصے میں یواے ای چلے گئے تھے اور وہاں ان کی کوچنگ کے ذریعے یواے ای نے انڈر نائنٹین ورلڈ کپ ، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور ففٹی اوورز ورلڈ کپ بھی کھیلا۔

انہوں نے کہا کہ لاہور قلندرز سے وابستگی کا بنیادی سبب اس کا ڈیولپمنٹ پروگرام ہے کیونکہ وہ صرف پی ایس ایل کے دنوں کے لیے کوچ بننے کے لیے تیار نہیں تھے ۔

عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ بحیثیت کوچ ان کے لیے سب سے زیادہ خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہوتی ہے کہ جب آپ کسی کھلاڑی کی زندگی میں فرق ڈالتے ہیں اس کے گھر کے حالات اچھے ہوتے ہیں اور اس کے علاقے میں کرکٹ کا شوق بڑھتا ہے۔

عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ طویل عرصے بعد لاہور قلندرز کو چھوڑنا ان کے لیے آسان فیصلہ نہ تھا انہوں نے یہ نئی ذمہ داری سنبھالتے وقت چیرمین پی سی بی سے یہ کہا تھا کہ وہ اپنے کام پر فوکس کرتے ہیں اور اس میں تبدیلی ضرور لاتے ہیں۔

عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ جب تک آپ کے آگے کی سوچ نہیں ہوگی آپ کبھی ترقی نہیں کرسکیں گے۔

عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی کا رول متعین ہونا چاہیے۔

اب آپ کو تینوں شعبوں میں یکساں مہارت والے کھلاڑی چاہئیں۔اسوقت متعدد ایسے کھلاڑی ہیں جنہیں فیلڈنگ کی بنیادی باتیں معلوم نہیں ہیں۔

نیشنل کرکٹ اکیڈمی کا یہ رول ہوگا کہ پاکستان ٹیم میں جو خلا ہے اسے ُپر کیا جائے۔ ایک کھلاڑی کے پیچھے تین تین کھلاڑی ہوں۔

مینز ٹیم کے ساتھ ساتھ ویمنز کرکٹ پر بھی مکمل توجہ دی جائے اور اس سلسلے میں کراچی کا ہائی پرفارمنس سینٹر مکمل طور پر خواتین کرکٹرز کے لیے مخصوص ہوگا۔اسی طرح ملتان کی اکیڈمی کو انڈر 19 کرکٹرز فیصل آباد کے ہائی پرفارمنس سینٹر کو انڈر17 کے لیے مخصوص کیا جائے گا اور اسے وہاں کے مقامی کالجز سے منسلک کیا جائے گا۔اسی طرح سیالکوٹ میں انڈر15 کا سیٹ اپ ہوگا اگر یہ سلسلہ صحیح طریقے سے چلا تو ہمیں کسی صورت میں کھلاڑیوں کی کمی نہیں ہوگی۔

عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی کی سہولتوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ بائیو مکینکس لیب کو دوبارہ متحرک کررہے ہیں۔

عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود کو چھ ماہ کا ٹارگیٹ دیا ہے کہ اگر یہ تمام سرگرمیاں شروع ہوجائیں تو اگلے چھ ماہ میں ہمیں ایک واضح شکل نظر آسکتی ہے کہ ہمارے پاس ایک مضبوط بیک اپ موجود ہو۔اس عرصے میں کھلاڑیوں میں جو جو خامیاں ہیں وہ انہیں دور کرسکتے۔

عاقب جاوید نے کہا کہ پاکستان ٹیم کے ہیڈ کوچ مائیک ہیسن کے ساتھ کواڑینیشن ہے کہ کس کھلاڑی کے پیچھے کس کھلاڑی کو رکھنا ہے۔

جہاں تک طویل مدتی پروگرام ہے اس کا تعلق انڈر15، انڈر 17 سے ہے اور یہ پراسیس ڈیڑھ سے دو سال کا ہو جس میں اچھے نتائج آنے چاہئیں۔

عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ ہم نے اکیڈمی کے لیے 30 باصلاحیت لڑکوں کا انتخاب ڈسٹرکٹ اور ریجن کی سطح پر بہترین پرفارمنس دینے والوں لڑکوں میں سے کرنا ہے۔ ایک منظم انداز میں اکیڈمیز کے لیے سلیبس مرتب کیا جائے گا۔

عاقب جاوید نے کہا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اچھے کوچز نہیں ہیں یہ بات درست نہیں ہیں۔ باہر سے کوچ لانا صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ ہر ملک میں یہی ہوتا آیا ہے۔ ہم اب یہ کام کرنے والے ہیں کہ کوچز،امپائرز کیوریٹرز ، ٹرینرز اور فزیو کی ایجوکیشن پر توجہ دی جائے تاکہ ان کا پول بڑھ سکے اور ان کا اعتماد بڑھ سکے۔ لیول تھری کوچنگ کے بعد کوچ کو کسی ایک شعبے میں اسپیشلائزیشن کرنی ہوگی۔

 

اشتہار
Back to top button