
اسٹیٹ بینک نے پاکستانی معیشت کی کیفیت پر ششماہی رپورٹ مالی سال 25ء جاری کردی
بینک دولت پاکستان نے مالی سال 25ء کی ششماہی رپورٹ بعنوان ’’پاکستانی معیشت کی کیفیت‘‘آج جاری کردی، جس کے مطابق مالی سال 25ء کی پہلی ششماہی کے دوران پاکستان کی معاشی صورتِ حال میں مزید بہتری آئی ہے۔ رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ عمومی مہنگائی میں تیزی سے کمی آئی، جاری کھاتے کا توازن سرپلس میں تبدیل ہوگیا اور مالیاتی خسارہ مالی سال 05ء کے بعد سے پست ترین سطح تک آگیا۔ رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کی منظوری کے ساتھ ساتھ زری پالیسی کے متوازن موقف، مالیاتی یکجائی اور عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں کمی نے بنیادی طور پر ان سازگار نتائج کو تقویت دی۔ رپورٹ میں بین الاقوامی ایجنسیوں کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بڑھانے جانے کو ملک کے معاشی ماحول میں بہتری کا اعتراف قرار دیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مہنگائی کے دباؤ میں نمایاں کمی آئی ہے کیونکہ مارچ 2025ء تک عمومی مہنگائی کئی دہائیوں کی کم ترین سطح 0.7 فیصد تک پہنچ گئی ۔ مہنگائی میں اس نمایاں کمی کی وجہ کئی عوامل تھے جن میں سخت زری پالیسی موقف اور مالیاتی یکجائی ، جس نے ملکی طلب کو قابو میں رکھا، رسد کی بہتر صورتِ حال ، توانائی کی قیمتوں میں کمی اور اجناس کی پست عالمی قیمتیں شامل ہیں۔ مہنگائی کے دباؤ میں کمی اور مہنگائی کے بہتر ہوتے ہوئے منظر نامے کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک نے جون 2024ء سے فروری 2025ء تک پالیسی ریٹ میں 1000 بیسس پوائنٹس کی کمی کر دی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مالی حالات میں بہتری کے ساتھ ساتھ اقتصادی سرگرمیوں میں قدرے اضافہ اور اے ڈی آر سے متعلق قرض گاری نے مالی سال 25ء کی پہلی ششماہی کے دوران نجی شعبے کے قرضوں کو خاصا بڑھانے میں کردار ادا کیا۔
حقیقی جی ڈی پی کی نمو میں کمی کو مالی سال 25ء کی پہلی ششماہی کے دوران خریف کی اہم فصلوں کی پست پیداوار اور صنعتی سرگرمیوں میں سکڑاؤ سے منسوب کیا گیا۔ خریف کی فصلوں میں وسیع البنیاد کمی کی وجہ زیرِکاشت رقبے میں کمی اور پست یافت تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ غیر یقینی زرعی پالیسی ، گذشتہ برس فصلوں کی کم قیمتیں، ناموافق موسمی حالات اور تصدیق شدہ بیجوں اور دیگر خام مال کا کم استعمال اس ناقص کارکردگی کا سبب بنے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ گذشتہ برس کے مقابلے میں مالی سال 25ء کی پہلی ششماہی کے دوران صنعتی شعبے کا سکڑاؤ نسبتاً کم تھا جس کی وجہ چھوٹے پیمانے کی اشیا سازی، بنیادی سہولتیں (یوٹیلیٹیز) اور ذبیحہ کی مثبت کارکردگی تھی جبکہ کان کنی اور کوہکنی، تعمیرات اور بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) نے منفی کردار ادا کیا۔ مزید برآں ،رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 25ء کی پہلی ششماہی کے دوران شعبہ خدمات نے گذشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 25ء کی پہلی ششماہی کے دوران برآمدات اور کارکنوں کی ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ درآمدات میں نمایاں اضافے سے تجاوز کرگیا جو جاری کھاتے کے توازن میں سرپلس کی وجہ بنا۔ ان پیش رفتوں کے ساتھ آئی ایم ایف کی ای ایف ایف کے تحت پہلی قسط کی فراہمی اور نجی رقوم کی آمد میں قدرے اضافے نے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے میں مدد دی۔
رپورٹ میں ایک خصوصی باب بھی شامل ہے جس کا عنوان، ’پاکستان کی مسابقت میں نچلی سطح: پیداواریت میں سرمایہ کاری کی ضروت ‘ ہے۔ اس باب میں پیش کیا گیا تجزیہ نشاندہی کرتا ہے کہ افرادی قوت کی پیداواریت اور مجموعی عامل کی پیداواریت میں پست نمو نے وقت گذرنے کے ساتھ ملک کی معاشی مسابقت پر منفی اثر ڈالا ہےاور اس کی وجہ سے بار بار ’بوم بسٹ‘ کے ادوار آتے ہیں۔اس باب کے مطابق پیداواریت کے مختلف محرکات اور بنیادی ساختی عوامل کے ضمن میں پاکستان کی کارکردگی اپنے ہم پلہ ممالک کے مقابلے میں کمزور ہے۔ لہٰذا اس باب میں پیداواریت بڑھانے کی راہ میں حائل معاشی اور ساختی رکاوٹوں کو دور کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مختلف ابواب میں مختلف باکس آئٹمز معیشت میں ساختی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں، جن میں ملک گیر تجربات کی روشنی میں متعلقہ سفارشات بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں مہنگائی اور بیرونی شعبے کے منظر نامے میں نمایاں بہتری کا ذکر کیا گیا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں توقع سے تیز کمی اور اس کے ہمراہ مناسب طور پر سخت زری پالیسی موقف ، مالیاتی یکجائی کی جاری کوششوں اور اجناس کی عالمی قیمتوں میں نرمی کے پیش نظر اسٹیٹ بینک نے مالی سال 25 ءکے لیے اوسط مہنگائی 5.5 سے 7.5 فیصد کی حدود میں رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ اسی طرح کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس اب جی ڈی پی کے منفی 0.5 سے 0.5 فیصد کے درمیان رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ رپورٹ میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ کارکنوں کی ترسیلات ِزر تیزی سے آمد اور برآمدات کی مستحکم رفتار درآمدات میں اضافے سے متجاوز ہونے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ توقع ہے کہ اس سے رقوم کی آمد میں کمی سے تحفظ ملے گا اور بیرونی بفرز کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ اسٹیٹ بینک کے حقیقی جی ڈی پی نمو کے تخمینے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور یہ 2.5 سے 3.5 فیصد کی حدود میں ہی رہنے کی توقع ہے۔تاہم رپورٹ میں اضافی مالیاتی یکجائی اور گندم کی توقع سے کم فصل کی صورت میں منفی خطرات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں وسط مدت کے منظر نامے کو لاحق خطرات کی بھی تفصیل فراہم کی گئی ہے، جو زیادہ تر عالمی تجارتی تعطل اور جوابی ٹیرف کی وجہ سے اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ ، بدلتی ہوئی جغرافیائی و سیاسی صورت حال، توانائی کی سرکاری قیمتوں میں ردّوبدل، مختلف مالیاتی اقدامات کے مجموعی ملکی طلب پر اثرات اور بین الاقوامی کرنسیوں میں تبدیلیوں کے مقامی کرنسی پر اثرات سے وابستہ ہیں ۔