
مادری زبانوں کا عالمی دن ہر سال 21 فروری کو منایا جاتا ہے 1999ء کو یونیسکو نے 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد ہر زبان میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا، تمام زبانوں کے تحفظ کے لیے شعور اجاگر کرنا، مادری زبانوں میں تعلیم کی حوصلہ افزائی اور ہر ملک کی ثقافت کو فروغ دینا ہے۔ ہر انسان کو اپنی مادری زبان سے محبت ہوتی ہے اور وہ اپنا نقطہ نظر مادری زبان میں زیادہ بہترین طریقے سے وضاحت کے ساتھ پیش کر سکتا ہے۔
پاکستان کی قومی زبان اردو ہے لیکن ہم صوبہ پنجاب کے رہنے والے ہیں اور ہماری مادری زبان مختلف پنجابی علاقوں کی پنجابی ہی زبان کہلاتی ہے۔ جو کہ تھوڑے سے لب و لہجے میں ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ پنجابی زبان صوفیائے کرام اور ہمارے آباؤ اجداد کی زبان ہے اس لیے ہمیں اس سے عقیدت ہے اور اس میں ہمیں بہت سا مواد بھی ملتا ہے۔ جو صوفیائے کرام نے اپنی شاعری کے ذریعے قلم بند کیا ۔لاہور میں اس کے لیے بہت سی جگہوں پہ پروگرام منعقد کیے گئے۔
پنجاب یونیورسٹی، الحمرا اور پریس کلب میں جہاں مختلف علاقوں سے آئے مصنفین کو ایک دوسرے سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔
میجر شہزاد نیر جو کہ بہت اچھے شاعر ہیں، معروف مصنفہ وادیبہ محترمہ کنیز بتول کھوکھر نے انہیں اپنی کتاب "دستکِ درِمقفل” پیش کی اور ادبی گفتگو کے دوران دونوں میں بزم منظر عباس شاہ کے تمام شاگردوں کا بھی ذکر ہوا۔ جن میں سے اب اکثر صاحب کتاب بن چکے ہیں۔
محترمہ فریدہ خانم جو اپنی ادبی خدمات کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر بہت اچھے طریقے سے ادا کر رہی ہیں، مختلف پیپرز کے ایڈیٹر معظم خلیل اور انگلش رائٹر حذیفہ بھی وہاں موجود تھے۔