26 ویں ترمیم کو پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ختم کر سکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر
سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ آرٹیکل 184 کے معاملات میں صرف آئینی بینچ سماعت کرسکتا ہے، کسی ریگولر بینچ کے پاس آئینی تشریح کا اختیار نہیں، قوانین کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ صرف آئینی بینچ لے سکتا ہے،26 ویں ترمیم کو پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ختم کر سکتا ہے۔
بینچز اختیارات کیس میں جسٹس محمد علی مظہر نے آئینی بینچ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے 20 صفحات پر مشتمل نوٹ جاری کر دیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے نوٹ میں لکھا ہے کہ قوانین کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ صرف آئینی بینچ لے سکتا ہے، کسی ریگولر بینچ کے پاس آئینی تشریح کا اختیار نہیں، آئینی بینچ نے درست طور پر 2 رکنی بینچ کے حکمنامے واپس لئے۔
انہوں نے نوٹ میں لکھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم اس وقت آئین کا حصہ ہے، ترمیم میں سب کچھ کھلی کتاب کی طرح واضح ہے، ہم اس ترمیم پر آنکھیں اور کان بند نہیں کر سکتے، یہ درست ہے کہ ترمیم چیلنج ہو چکی اور فریقین کو نوٹس بھی جاری ہو چکے، کیس فل کورٹ میں بھیجنے کی درخواست کا میرٹ پر فیصلہ ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کو پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ فیصلہ ہی ختم کر سکتا ہے، جب تک ایسا ہو نہیں جاتا معاملات اس ترمیم کے تحت ہی چلیں گے اور آئینی تشریح کم از کم 5 رکنی آئینی بینچ ہی کرسکتا ہے، کسی ریگولر بینچ کو وہ نہیں کرنا چاہئے جو اختیار موجودہ آئین اسے نہیں دیتا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے نوٹ میں لکھا کہ ٹیکس کیس میں بنیادی حکمنامے واپس ہو چکے، بنیادی حکمناموں کے بعد کی ساری کارروائی بے وقعت ہے، آئینی بینچ نے جسٹس منصور اور جسٹس عقیل عباسی کے حکمنامے واپس لیے تھے۔
رپورٹ کے مطابق 20 صفحات پر مشتمل متفقہ نوٹ آئینی بینچ کے 28 جنوری کے حکم نامے کے حق میں سامنے آیا ہے جس میں ایک ریگولر بینچ کے 13 اور 16 جنوری کے احکامات کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے واپس لے لیا گیا تھا۔
آئینی بینچ کے رکن جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار، آرٹیکل 185 (3) کے تحت اپیلیٹ دائرہ اختیار یا آرٹیکل 186 کے تحت مشاورتی دائرہ اختیار استعمال کرنے کا حق صرف آئینی بینچ کو حاصل ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ ’میں قول و فعل میں تضاد کے بغیر واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ موجودہ حالات میں آئینی بینچ کے علاوہ اس عدالت کا کوئی بھی بینچ آرٹیکل 184، 185(3) اور آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار، اپیلیٹ دائرہ اختیار یا شکایتی دائرہ اختیار کا استعمال نہیں کر سکتا۔
28 جنوری کے حکم نامے میں جسٹس منصور کی سربراہی میں چھوٹے بینچ کی جانب سے اٹھائے گئے اس پیچیدہ مسئلے کو بھی حل کیا گیا ہے کہ آیا آرٹیکل 191 اے کے تحت قائم کی گئی آئینی کمیٹی ایک ریگولر بینچ کی جانب سے پہلے سے زیر غور دائرہ اختیار کے معاملے کو واپس لے کر عدالتی حکم کے اثرات کو ختم کر سکتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ میرے خیال میں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس وقت آئینی بینچ کے باہر اس دائرہ اختیار کا کوئی بھی استعمال خلاف ضابطہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 191 اے (5) میں کہا گیا ہے کہ 26 ویں ترمیم کے نفاذ سے قبل سپریم کورٹ میں دیے گئے فیصلوں یا منظور کردہ یا زیر التوا یا دائر کردہ احکامات کے خلاف تمام درخواستیں، اپیلیں یا نظرثانی کی درخواستیں منتقل کردی جائیں گی اور صرف آئینی بینچ ہی ان کی سماعت اور فیصلہ کرے گا۔
جسٹس مظہر نے وضاحت کی کہ ’میرے حکم پر پوری عاجزی اور احترام کے ساتھ، اگر کوئی ریگولر بینچ، واضح اور غیر واضح آئینی دفعات کے باوجود ٹیکس معاملے میں صرف مدعا علیہ کے وکیل کی دلیل کی بنیاد پر مبینہ تنازع کا فیصلہ کرنے کے لیے حد سے زیادہ عزم کے ساتھ کام کرتا ہے، تو یہ نہ صرف دائرہ اختیار کا غلط استعمال ہوگا بلکہ آئین کے آرٹیکل 191 اے کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔
نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ججوں نے آئین کے تحفظ، بقا اور دفاع کا حلف اٹھارکھا ہے، اس کے علاوہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کے لیے ضابطہ اخلاق، جو سپریم جوڈیشل کونسل نے 1962 کے آئین کے آرٹیکل 128 (4) کے تحت تیار کیا تھا اور جس میں 1973 کے آئین کے آرٹیکل 209 (8) کے تحت ترمیم کی گئی تھی، کا مطلب آئین اور اس کے تحت قانون کے سامنے مکمل طور پر تابع ہونا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے زور دے کر کہا کہ زیر التوا درخواستوں کا حتمی فیصلہ آنے تک ہم اس زمینی حقیقت پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے اور اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ نہ صرف آئین کے موجودہ فریم ورک کے تحت باقاعدگی سے آئینی بینچ باقاعدگی سے بیٹھ رہا ہے بلکہ مقدمات کو بھی باقاعدگی سے طے کیا جا رہا ہے اور ان کی سماعت بھی کی جا رہی ہے۔
موجودہ کارروائی صرف کسٹمز ایکٹ 1969 کی دفعہ 221-اے کی ذیلی شق 2 کے مبینہ نقائص کے سوال تک محدود ہے، جسے فنانس ایکٹ، 2018 کے ذریعے شامل کیا گیا ہے۔
جسٹس مظہر نے کہا کہ وہ اس تصور پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ آئینی جج کا کردار بادشاہ سے مختلف ہوتا ہے جو اپنی رعایا پر اختیارات کا استعمال کرنے اور اپنی پسند کے احکامات جاری کرنے کے لئے آزاد ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری طرف ایک آئینی جج کو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ بھی اسی آئین کے پابند ہیں جس کی تشریح اور نفاذ انہیں سونپا گیا تھا اور اس لیے وہ آئین اور قانون کے سب سے پہلے اور سب سے اہم تابع ہیں۔