ٹیکس چھوٹ، الاؤنسز، اور سروس سٹرکچر میں اصلاحات کے لیے اساتذہ کا احتجاج
وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت سکولوں اور کالجوں کے تدریسی اور غیر تدریسی عملے نے نیشنل پریس کلب کے سامنے ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں ٹیکس چھوٹ کی بحالی ، ایجوکیشن الاؤنسز اور چار درجاتی سروس سٹرکچر میں بہتری کا مطالبہ کیا گیا۔
جوائنٹ ایجوکیشن ایکشن کمیٹی (جیک) کے زیر اہتمام، مظاہرے میں مختلف ایسوسی ایشنز جس میں فیڈرل گورنمنٹ کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن (ایف جی سی ٹی اے)، ہیڈز ایسوسی ایشن، اسکولز ایسوسی ایشن، نان ٹیچنگ ایسوسی ایشن، اور سینٹرل اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن آف ماڈل کالجز(کاسا) شامل تھیں۔
مظاہرین اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگائے۔ اہم مطالبات میں سے اساتذہ کے لیے 100فی صد ٹیکس چھوٹ ،ایجوکیشن الاؤنسز اور چار درجاتی سروس سٹرکچر میں بہتری کے مطالبات شامل تھے۔ ایف جی سی ٹی اے کے جنرل سیکرٹری پروفیسر طاہر بھٹی نے کہا کہ ایک طرف تو قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں 400 فیصد اضافہ کیا گیا اور دوسری طرف اساتذہ سے ان کی ٹیکس چھوٹ چھین لی گئی ہے۔
دنیا بھر میں اساتذہ کو مالی مراعات دی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں وہ چند مراعات بھی چھین لی جا رہی ہیں۔ جیک کے چیئرمین فضلِ مولا نے کہا کہ مختلف محکمے اپنے ملازمین کو ایگزیکٹو الاؤنس، ٹرانسپورٹ منیٹائزیشن، اور دیگر مالی فوائد فراہم کررہے ہیں جبکہ تعلیم کا شعبہ بدستور نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ہم کحکمہ تعلیم کے سٹاف کی بنیادی تنخواہ کے برابر تعلیمی الاؤنس کا مطالبہ کرتے ہیں ۔
پروفیسر رشید خان، ڈاکٹر رحیمہ رحمان، اور الطاف حسین سمیت کاسا کے نمائندوں نے کہا کہ اساتذہ قوم کے معمار ہیں ان کے ساتھ منصفانہ سلوک ہونا چاہیئے۔ قائداعظم یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر امان اللہ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ٹیکس چھوٹ کو بحال کرے، کیونکہ بڑھتے ہوئے ٹیکس اور مہنگائی نے اساتذہ کے مالی استحکام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ایف جی سی ٹی اے کے جوائنٹ سیکرٹری پروفیسر دانش یاسین نے کہا کہ حکومت اساتذہ کو مراعات دینے کے بجائے انہیں ختم کرہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس سے باصلاحیت افراد کی حوصلہ شکنی ہو گی اور وہ تعلیم کے شعبے میں آنے سے گریز کریں گے۔مظاہرین نے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں بڑے مظاہروں کے بارے میں خبردار کیا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے مطالبات کی منظوری کے لیئے فوری اقدام کرے