پاکستان کی جیلوں میں 65,811 قیدیوں کی گنجائش کے مقابلے میں 102,026 قیدی موجود
پاکستان کی جیلوں میں 65,811 قیدیوں کی گنجائش کے مقابلے میں 102,026 قیدی موجود ہیں، جو 152.9فیصد اضافی گنجائش پر کام کر رہی ہیں۔ بعض صورتوں میں، گنجائش سے تجاوز 300فیصد سے بھی زیادہ ہے، جیسا کہ کراچی کی سینٹرل جیل میں دیکھا گیا۔ یہ اعداد و شمار "پریزن ڈیٹا رپورٹ 2024” میں سامنے آئے، جو قومی کمیشن برائے انسانی حقوق( این سی ایچ آر ) ، نیشنل اکیڈمی آف پریزن ایڈمنسٹریشن (NAPA)، اور جسٹس پروجیکٹ پاکستان (JPP) کی مشترکہ کاوش ہے۔
یہ رپورٹ ملک کے جیل کے نظام کے بے مثال، ڈیٹا پر مبنی تجزیہ پیش کرتی ہے۔ اس میں اہم چیلنجز کو اُجاگر کیا گیا ہے، جن میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد، طویل مدت تک زیر سماعت قید، اور خواتین اور نابالغوں جیسے کمزور طبقات کی منظم نظراندازی شامل ہیں۔رپورٹ کے اہم نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ 73.41 فیصد قیدی زیر سماعت ہیں، جو انصاف کے نظام میں ناکارکردگی اور عدالتی عمل میں تاخیرہے ۔رپورٹ مزید بتاتی ہے کہ خواتین اور نابالغ قیدی غیر متناسب مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، صرف چار جیلیں خواتین کے لیے مختص ہیں اور 85.1 فیصد نابالغ ابھی بھی مقدمے کے منتظر ہیں۔رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 23 فیصد سے زیادہ قیدی منشیات سے متعلق جرائم میں قید ہیں جبکہ ایسے قیدیوں کو سزاؤں کے بجائے بحالی پروگرامز کی ضرورت زیادہ ہے ۔
رپورٹ پالیسی سازوں، شراکت داروں اور عوام کے لیے ایک اہم وسیلہ فراہم کرتی ہے۔ اس کے نتائج پاکستان میں زیادہ منصفانہ اور مؤثر جیل نظام کی تعمیر کے لیے بامعنی مکالمے اور عملی اقدامات کی ترغیب دینے کا مقصد رکھتے ہیں۔یہ رپورٹ پاکستان کے جیل کے نظام کو بین الاقوامی معیار، جیسے منڈیلا رولز اور بینکاک رولز، کے مطابق ڈھالنے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔اس میں متبادل سزاؤں، جیسے پروبیشن اور کمیونٹی سروس، کو اپنانے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد کم کی جا سکے اور جرائم کی بنیادی وجوہات کو حل کیا جا سکے۔
چیئرپرسن نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق رابعہ جویری آغا نے کہا کہ پاکستان کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی، بنیادی ضروریات تک ناکافی رسائی، اور انسانی حقوق کے مسائل اہم چیلنجز ہیں ۔ این سی ایچ آر باقاعدگی سے جیلوں کا معائنہ کرتی ہے تاکہ حالات کا جائزہ لیا جا سکے اور یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہم قومی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق کام کر رہے ہیں یا نہیں ۔
طویل مدت تک زیر سماعت قید کے مسئلے پر چیئرپرسن این سی ایچ آر نے مزید کہاکہ غیر حراستی اقدامات جیسے پروبیشن، کمیونٹی سروس، اور اصلاحی انصاف کے طریقے گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد میں نمایاں کمی لا سکتے ہیں۔ ہم عدلیہ اور قانون ساز اداروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں تاکہ ایسے متبادل اقدامات کو فروغ دیا جا سکے جو افراد اور معاشرے دونوں کے لیے فائدہ مند ہوں۔
اس حوالے سے سارا بلال، ایگزیکٹو ڈائریکٹر جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے کہا کہ ہماری جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کا مسئلہ صرف لوجسٹک مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک اخلاقی اور انتظامی بحران ہے۔یہ رپورٹ وہ ڈیٹا اور بصیرت فراہم کرتی ہے جو انصاف کو ترجیح دینے پر مبنی اصلاحات کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہیں۔ ہر اضافی قیدی جو گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے سیل میں ہے، ہماری انصاف فراہم کرنے میں ناکامی کا غماز ہے۔ہمیں سزاؤں کے قوانین میں اصلاحات اور ضمانت کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے فوری اقدامات کرنے چاہیئے ۔
نائب جنرل ڈائریکٹر نیشنل اکیڈمی آف پریزن ایڈمنسٹریشن (NAPA) اظہر رشید خان نے کہاکہ ڈیٹا پر مبنی اصلاحات وہ کلید ہیں جو ایک ایسا انصاف کا نظام بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں جو ہر کسی کے لیے کام کرے۔ ہمارے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر قیدی معمولی جرائم کے مرتکب ہیں۔وہ افراد جو غربت یا مایوسی کی وجہ سے جرم کی طرف راغب ہوئے۔ ان بنیادی وجوہات کو حل کرنا ہماری نئے جیل بنانے کی نسبت کہیں زیادہ تیز رفتاری سے ان جیلوں کو خالی کر دے گا ۔
فرحہ علی شاہ، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بروقت مقدمات کی سنوائی یا زیر سماعت قیدیوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ بغیرانتظامی اصلاحات کے، ہمارے انصاف کے نظام میں خرابیاں بڑھیں گےلہذا ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو بڑھا نا ہو گا۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ ہمیں پاکستان میں جیل کے نظام کو بین الاقوامی معیار جیسے منڈیلا رولز اور بینکاک رولز کے مطابق ڈھالنا ہوگا تاکہ تمام قیدیوں کے حقوق کی پاسداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس رپورٹ کی اہم سفارشات میں غیر حراستی سزاؤں کے آپشنز کو بڑھانا، قانونی امداد تک رسائی کو بہتر بنانا اور خواتین اور نابالغوں جیسے حساس گروپس کی ضروریات کو ترجیح دینا شامل ہیں۔ اگر ہم ان اصلاحات پر عملدرآمد کریں تو ہم ایک زیادہ منصفانہ اور انسان دوست معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔