بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

جوہری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، شاہ محمود قریشی

مودی اور مقبوضہ کشمیر کے سینیئر سیاستدانوں کے درمیان ملاقات 'تعلقات عامہ کا عمل تھا جس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور مقبوضہ کشمیر کے سینیئر سیاستدانوں کے درمیان ملاقات ‘تعلقات عامہ کا عمل تھا جس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا اسلام آباد میں نیوز بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ملاقات بھارت اور نریندر مودی کی ساکھ بحال کرنے کی کوشش تھی جسے 5 اگست 2019 کے اقدامات سے بین الاقوامی طور پر زک پہنچی تھی.


انہوں نے کہا کہ یہ میری نظر میں کل کی نشست ناکام، بے سود اور بے مقصد تھی جس سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوگا، میری نظر میں آج بھی کشمیری اپنے تشخص کی تلاش میں ہیں اور اپنی خود مختار حیثیت کا مطالبہ کرتے ہیں اور آبادیاتی تبدیلی کو قبول نہیں کررہے. وزیر خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے اس لیے وہ اپنے مالکانہ حقوق، ملازمتوں کا تحفظ چاہتے ہیں اور اس بارے میں فکر مند ہیںانہوں نے کہا کہ کل کی نشست سے ایک بات بہت واضح ہوئی کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ دلوں کے درمیان دوری ہے اور کشمیری دلی سے دور ہیں.

وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ کشمیر میں حالات معمول کی جانب لوٹ آئے ہیں، سب نے 5 اگست 2019 کے اقدامات کو تسلیم کیا اور ان سے خوشگوار تبدیلی آئے گی لیکن آج یہ جملے اس کی نفی کررہے ہیں‘وزیر خزانہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں اقوامِ متحدہ کی فوج کی تعیناتی کا کوئی پروگرام ہمارے علم میں نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ترکی سے تقاضہ کیا جارہا ہے کہ وہ کابل ایئرپورٹ پر اپنی موجودگی برقرار رکھے لیکن اس پر ترکی نے کیا فیصلہ کیا یا افغان حکومت اور طالبان کا کیا موقف ہے اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے.

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کی بھارتی کوششیں روکنے کے لیے اب تک پاکستان نے کیا کیا، جس پر شاہ محمود نے کہا اس مسئلے کو متعدد عالمی فورمز پر اٹھایا جاچکا ہے اور جہاں بھی موقع ملتا ہے اس کی اہمیت اور اثرات کا تذکرہ کرتے ہیں وزیراعظم کے نیوکلیئر ہتھیاروں سے متعلق بیان پر جوہری پالیسی میں تبدیلی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ جوہری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے.

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے واضح کہا ہے کہ ہمارے کوئی جارحانہ ارادے ہیں نہ تھے، ہم نے اپنے دفاع کے لیے مجبوراً اس جانب قدم اٹھایا اور کون نہیں چاہے کہ دنیا جوہری ہتھیاروں سے پاک ہو لیکن سیکیورٹی کے ماحول، تنازعات اور طاقت کے توازن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان نے اس کا فیصلہ کیا تھا. بھارت نواز کشمیریوں کی جانب سے 5 اگست کے اقدام واپس لینے کے مطالبے سے متعلق سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان اقدامات پر تمام کشمیری، پاکستان اور بین الاقوامی برادری معترض ہے تو اگر دیکھا جائےتو سب حلقے انہیں مسترد کرچکے ہیں بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں.

افغانستان میں بڑھتی ہوئی پر تشدد کارروائیوں کی ذمہ داری کے سوال پر وزیر خارجہ نے کہا کہ وہاں دیگر عناصر بھی موجود ہیں جو تشدد میں اضافے کے ذمہ دار ہیں جن میں داعش، اندرونی اور بیرونی بگاڑ پیدا کرنے والوں کے علاوہ وہ عناصر بھی شامل ہیں جو افغانستان میں امن و استحکام نہیں دیکھنا چاہتے انہوں نے کہا کہ ہم بحیثیت حکومت نہ صرف افغانستان میں امن و استحکام کے خواہاں ہیں بلکہ اس کے لیے کام بھی کررہے ہیں.

افغانستان کے مشیر قومی سلامتی کے پاکستان مخالف بیانات اور جو بائیڈن اور عمران خان کے درمیان عدم رابطے کی صورت میں افغان قیادت سے امریکی صدر کی ملاقات کا منفی اثر ہوسکتا ہے کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکی افغانستان میں پاکستان کے کردار سے بخوبی واقف ہیں. انہوں نے کہا کہ امریکی مندوب برائے افغانستان نے واضح طور پر افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کے تعمیری سہولت کاری کے کردار کو تسلیم کیا ہے، آج پاکستان کو مسئلے کے حصے نہیں بلکہ حل کے حصے کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیا طالبان کی جانب سے افغانستان میں بڑے حصے پر قبضے کا امن عمل پر کوئی اثر ہوگا کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات سے کیا گیا تصفیہ ہر ایک کے مفاد میں ہے جو آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ ہے.

انہوں نے کہا کہ طالبان اور افغان حکومت کے اراکین کو بیٹھ کر اپنے مستقبل کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں ہے، بات چیت سے جو بھی نتیجہ نکلے گا ہم اس کا احترام کریں گے پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس وقت کوئی بیک ڈول چینل موجود نہیں ہے، پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور دہرا دیتا ہوں کہ انٹیلیجنس کی سطح پر خطے کی صورتحال کے حوالے سے گاہے بہ گاہے رابطہ ہوتا ہے.

Back to top button