ختم نبوت کانفرنس کی تیاریاں۔۔۔عاشقان رسول کی لازوال محبتوں کا مظہر

فخرالاسلام عباسی

پورے ملک میں ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کےلئے مہم عروج پہ ہے ، ختم نبوت دروس کا اہتمام، کنونشنز ، انفرادی اجتماعی ملاقاتوں کا تسلسل عاشقان رسول کی لازوال محبتوں کا مظہر ہے ، کانفرنس کی میزبانی جمعیت علماء اسلام ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ذمہ ہے ، قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے چند دن قبل اعلان کیا تھا کہ آنیوالے سات ستمبر کو لاہور مینار پاکستان میں یوم الفتح منائیں گے ، یوم الفتح قادیانیت کو آئینی طور پہ ملک کے پارلیمان سےغیرمسلم قرار دینے کے بعد پچاس سال مکمل ہونے پہ منایاجائے گا ، قائد جمعیت کی اس کال پہ مسلمانان پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ، حتی کہ مختلف مسالک کے لوگوں نے بھی خوش آمدید کہا ، اس گہما گہمی میں دو سوال اہمیت کے حامل ہیں ، پہلا سوال یہ کہ سات ستمبر کو کیا ہوا تھا ؟ دوسرا سوال کہ اس کانفرنس اور اجتماع کے کیا فوائد مرتب ہو سکتے ہیں ؟ ان تشریح طلب سوالات کے مختصر جوابات سے قبل پس منظر جاننا ضروری ہے !

مرزئی جماعت کی بنیاد 1889 میں ہندوستان کے شہر لدھیانہ میں رکھی گئی ، م رزا غلام نے خود کو منصب نبوت کا حامل ڈیکلئیر کیا ، مسیح موعود ، مہدی موعود کا دعوی کر بیٹھا ، غلام مرتضی باپ اور چراغ بی بی اس کی ماں تھی ، تقریباً ایک صدی پیش تر برطانوی استعمار نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے امت مسلمہ کے اس متفقہ اور اجماعی عقیدے کے خلاف محاذ کھولا، م رزا غلام ق ادی انی کو ’’منصب نبوت‘‘ پر فائز کیا، اسلام کے متوازی ایک نیا دین بنایا، نبوت محمدیہ کے مقابل ایک نئی نبوت، قرآن کریم کے متوازی نئی وحی، اسلامی شعائر کے متوازی ق ادی انی شعائر، امت محمدیہ کے متوازی نئی امت، مسلمانوں کے مکہ مکرمہ کے مقابلے میں نیا مکۃ المسیح، مدینۂ منورہ کے مقابلے میں مدینۃ المسیح، اسلامی حج کے مقابلے میں ظلی حج، اسلامی خلافت کے مقابلے میں ق ادی انی خلافت، امہات المومنینؓ کے مقابلے میں ق ادی انی ام المومنین، صحابہ کرامؓ کے مقابلے میں ق ادی انی صحابہ کے القاب و نام تجویز کیے ، حتی کہ مرزا ق ادی انی کی اس نئی نبوت اور نئے دین کو نہ ماننے والے مسلمان کافر اور جہنمی قرار پائے ! م رزا کے ہاتھ پہ پہلی بیعت میں چالیس افراد نے شرکت کی ، جھوٹے مدعی نبوت نے اب تک دنیا کے دو سو ممالک میں اپنا مشن پہنچا دیا ، انگریز کے اس خود کاشتہ پودے نے بھرپور کوشش کی کہ ہمیں ایک علیحدہ سٹیٹ مل جائے مگر ناکام ہوئے،

قیام پاکستان کے بعد پھر سے مرزائیت  نے اپنے جال ڈالنے شروع کیے ، 1953 کی تحریک ختم نبوت وجود میں آئ ، مجلس احرار کے پلیٹ فارم سے سد م رزائی ت پہ محنت کی گئی، بالاخر 1974 میں ق ادیان یوں کی شرارت سے جب مسلمانان پاکستان نے تحریک چلائ جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء متحد تھے، بعد ازاں تمام علماء "بنیان مرصوص” کی طرح سد سکندری ثابت ہوئے ، علماء کی جدوجہدسے ق ادی ان یوں کے خلاف ہڑتالیں ، بائیکاٹ مہم شروع ہوئ، قومی اسمبلی میں بحث ہوئ ، ق ادیان یوں کو اپنے موقف کا موقع دیا گیا ، مفتی محمود رح مولانا غلام غوث ہزاروی نے مختلف مکاتب فکر کی حمایت سے اسمبلی کے فلور پہ جن گ لڑی ، بالاخر حکومت وقت نے 7 ستمبر 1974 کو ق ادیان یوں کے خلاف حتمی فیصلہ کے اعلان کا فیصلہ کیا ، طویل بحث کے بعد 7 ستمبر 1974 کو ق ادیانی وں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ، اس فیصلہ کو اب ستمبر 2024 میں پچاس سال مکمل ہو رہے ، یہ پچاس سالہ کانفرنس دراصل اس عظیم جدوجہد کی یاد اور امت مسلمہ کی اس تاریخ ساز فتح کا جشن ہے جس میں مسلمانان پاکستان کو شرکت کی دعوت ہے ،

دوسری اہم بات یہ کہ اس طرح کی اجتماعی جدوجہد کا فائدہ کیا ہے ؟ یاد رکھیے ! اس اجتماعی بھاگ دوڑ کا نتیجہ قادیانیت کے چہرہ سے دجل کی چادر اتارنے کی شکل میں سامنے آیا ، 74 کی تحریک میں جو جان پڑی اس کے پیچھے ہزاروں عاشقان ختم نبوت کی شہادتیان اور قربانیاں ہیں ، عوامی مظاہرے ، ہڑتالیں ، عوام کی آگاہی کے لئے کانفرنسز ، دروس اور جدوجہد کے اس ماحول نے آج ہمیں ختم نبوت کے دشمنوں کے خلاف گرج کر بولنے کے مواقع فراہم کیے ، لازمی امر ہے کہ جب آپ اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کرتے دشمن آپ کو اہمیت دینے میں کتراتا ہے ، ہر طبقہ کے لوگ اپنے مادی دنیاوی مفادات کے لئے چوکوں، چوراہوں میں آتے ہیں اور اپنے مطالبات منظور کرواتے ہیں ، کیاختم نبوت کے دیوانے اپنی قوت کا مظاہرہ کرکے دنیا کو یہ پیغام نہیں دے سکتےکہ م رزا کل بھی اور آج بھی جھوٹا دجال اور لعین ہے ،

سات ستمبر کی اس تاریخ ساز کانفرنس کا حصہ بنیے ، اپنی شرکت کو یقینی بنائیے، عشاق مصطفی میں اپنا نام لکھوائیے ، اسی دن ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھی کانفرنسز ہونگی ۔ اللہ ختم نبوت کے محاذ کو گرم رکھنے والے تمام علماء اور اہل اسلام کی حفاظت فرمائے اس مشن کے صدقے ہم سب کی بخشش فرمائے ، امین

Exit mobile version