چیئرمین پی سی بی محسن نقوی صاحب گل ودھ گئی ائے، اب سرجری جس کا لارا آپ نے لگایا تھا اس کی بجائے بڑے آپریشن کی ضرورت ہے کیونکہ مریض کی حالت پہلے سے زیادہ بگڑ چکی ہے، یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم بنگلہ دیش کیخلاف اپنے ہی ہوم گرائونڈ پر وائٹ واش ہو سکتی ہے مگر یہ سب کچھ ہو چکا ہے، شان مسعود نے بڑی شان کے ساتھ قیادت کرتے ہوئے یہ ہزیمت اپنے سر لی ہے جو ساری زندگی اب ان کے ساتھ چلے گی، جب بھی بنگلہ دیش کے کلین سوئپ کی بات ہو گی تو نام شان مسعود کا ہی آئے گا، معلوم نہیں اس شان مسعود کو ایک ایسی ٹیم جس میں ہر دوسرا کھلاڑی کپتان بننے کیلئے سازشیں کرتا ہے کی قیادت کرنے کی حامی بھرنے کا کہا تھا۔
ٹیم کے بڑے بڑے نام ہونے کے باوجود بنگلہ دیش کی ٹیم سے شکست شائقین کو کیسے ہضم ہو گی یہ بڑا اہم سوال ہے اور آئندہ چند روز تک سوشل میڈیا پر ان کرکٹرز کا جو حشر ہوگا وہ بھی قابل دید ہی ہوگا، بابر اعظم کو معلوم ہونا چاہئے کہ صرف نام کے ساتھ اعظم لگانے سے کوئی اعظم نہیں بن جاتا اس کیلئے کچھ کرنا پڑتا ہے، موصوف نے گزشتہ 16 ٹیسٹ میچوں میں ایک بھی نصف سنچری سکور نہیں کی، بنگلہ دیش کیخلاف 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کی 4 اننگز میں صرف 64 رنز بنا سکے۔
کرکٹ بورڈ نے کپتان بھی اس کو بنا ڈالا جس کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی، شان مسعود بنگلہ دیش کیخلاف ایک نصف سنچری سکور کرنے کے ساتھ چار اننگز میں 26 کی اوسط سے 105 رنز بنا پائے، کیا کسی ٹیم کے کپتان کی یہ کارکردگی ہوتی ہے۔۔۔؟
جب کپتان نہیں کھیلے گا تو باقی بیٹرز نے خاک کارکردگی دکھانی ہے، نائب کپتان سعود شکیل نے پہلے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں 141 رنز بنائے اس کے بعد ان کا بیٹ خاموش رہا، چار اننگز میں یہ بھی صرف 159 رنز سکور کرسکے، اوپنر عبداللہ شفیق کو شاید رکھا اس لئے گیا تھا کہ مخالف ٹیم کے بائولرز کو جلد وکٹ مل سکے، یہ بھی چار اننگز میں صرف دس کی اوسط سے 42 رنز بنا پائے۔
پاکستان کو ہوم گرائونڈ پر آسڑیلیا کے ہاتھوں ایک صفر، انگلینڈ کے ہاتھوں تین صفر اور بنگلہ دیش کیخلاف دو صفر سے شکست کا مطلب واضح طور پر یہی ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ پاکستان میں مر رہی ہے یا قتل کی جا رہی ہے اور اس کا ذمہ داری کوئی اور نہیں کرکٹ بورڈ، اس کے کھلاڑی ہیں۔